حمزہ شہباز پس منظر میں کیوں؟
وزیر اعظم نواز شریف خاندان کے مختصر قافلے کے ساتھ عمرہ کیلئے سعودی عرب چلے گئے ہیں اور انکے بعد پاکستانی سیاست کے بپھرے ہوئے سمندر میں شہباز شریف یا خادم پنجاب عملاً آنکھ مچولی کے میدان میں ہیں چھوٹے میاں صاحب تو بڑے میاں صاحب کی موجودگی میں بھی کئی اہم وفاقی محاذوں پر مصروف پیکار تھے مگر اب تو چند دن کیلئے کچھ انکے ہاتھ میں ہے خاندان کے ایک اہم فرد اسحاق ڈار بھی بڑے میاں صاحب کے ساتھ پاکستانی فضاﺅں سے دور اور بہت حد تک پاکستانی میڈیا کی رسائی سے بھی باہر رہیں گے اس صورت حال میں کئی حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ حمزہ شہباز جو میاں فیملی کے اقدار کے زینے کی تیسری کڑی بنے ہوئے تھے وہ کیوں پس منظر میں ہیں۔ یہ خبریں تو آتی ہیں کہ حمزہ صاحب فلاں اہم کمیٹی میں شامل ہیں یا فلاں اہم اجلاس میں شریک ہوئے لیکن وہ میڈیا کی رسائی سے یا تو باہر ہیں یا بوجوہ میڈیا کے سامنے نہیں آ رہے۔ ماڈل ٹاﺅن سانحہ کے بعد سے وہ زیادہ خاموش ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کی وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات یا صلح جوئی کی میٹنگ میں البتہ وہ ضرور شامل رہے لیکن جس تیزی کیساتھ اپنے والد گرامی یعنی خادم پنجاب کے بعد شریف فیملی کی طرف سے مستقبل کے سیاسی وارث کے طور پر ان کا قد کاٹھ ابھر رہا تھا اس رفتار میں خاصی کمی آئی ہے گزشتہ الیکشنوں کے بعد پنجاب میں جتنے ضمنی انتخابات ہوئے عملاً ان کی نگرانی حمز ہ شہباز نے کی اور زیادہ تر کامیابی حاصل کی اس طرح پنجاب کی دیہی سیاست کے کیچڑ میں لپٹی ہوئی مختلف خاندانوں کی رسہ کشی کی ڈور کو سلجھانے کیلئے حمزہ شہباز شریف کو ہی آگے کیا گیا۔ اس طرح وہ پنجاب کے مختلف سیاسی خانوادوں کے اندرونی جھگڑوں، دوستیوں، دشمنیوں کی باریکیوں سے آگاہی کا کورس مکمل کر رہے تھے اور ان پر ٹھپہ نہیں رہا تھا کہ وہ میٹرو پولیٹن لاہور کی نجیہ گری تک محدود ہیں یہ سب کچھ ہونے کے بعد اب ان کو پس منظر میں رکھے جانے کی پالیسی پر مختلف حلقے چہ میگوئیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں ایک مثال یہ ہے کہ وزیرستان میں جاری آپریشن کے بعد مختلف طالبانی حلقوں کی طرف سے پنجاب کے اہم سیاسی خانوادوں کے خلاف کارروائی کی جو دھمکیاں دی گئیں۔ اس وجہ سے پوری شریف فیملی محتاط ہو گئی اور خاص طور پر سیاسی وراثت کی علامتوں یعنی حمزہ شہباز اور مریم نواز کی سیاسی سرگرمیوں کو محدود کر دیا گیا۔ اس خیال کی تائید میں پنڈ ارائیاں میں دہشت گردوں کی موجودگی اور میاں صاحبان کی بظاہر محفوظ رہائش گاہوں کے قریب ترین مقامات تک ٹھکانوں اور پھر آپریشن کو پیش کیا جاتا ہے جو بہت حد تک درست بھی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف جو شریف فیملی کی دھواں دھار سیاست کا مرکزی کردار تصور کئے جاتے ہیں معمول کے مطابق میدان میں ہیں وہ ان دنوں بھی ایک سے زیادہ بار سیکورٹی خطرات کے دائرے میں جا کر مختلف تقریبات سے خطاب کر رہے ہیں میڈیا کا سامنا کر رہے ہیں اور زبان و بیان کے جوہر بھی دکھا رہے ہیں۔ ماضی میں یہ تصور عام تھا کہ چھوٹے میاں صاحب نے جب جامعہ نعیمیہ کی ایک تقریب میں طالبان کو علامتی انداز میں اشارہ کیا تھا کہ پنجاب میں ان کیلئے ہمدردی پائی جاتی ہے تو اس حکومت کے دائرے میں تو دھماکے نہ کریں تو پھر پنجاب میں دہشت گردوں کے واقعات کم ہو گئے تھے۔
اگر ایسا تھا بھی تو اب تو میاں صاحبان کی وفاق میں حکومت ہے اور حکومت طالبان کے گڑھ میں آپریشن کروا رہی ہے ایسے میں تو ماضی کی گارنٹیاں بھی ختم سمجھی جانی چاہئیں تھیں پھر ایک اور مورخ کے اہم کردار یعنی رانا ثناءاللہ جن کے بارے میں مشہور رہا کہ وہ طالبان اور میاں صاحب کے درمیان پل بنے رہتے ہیں وہ بھی اقتدار ایوان سے باہر ہیں۔ ان حالات میں تو پنجاب کے خلاف طالبان کا غصہ بھی عروج پر ہونا چاہئیے اگر یہ سب کچھ درست ہے اور پنجاب میں امن ہے تو پھر ماضی کے مفروضے غلط تھے یا پھر وزیرستان آپریشن سے طالبان کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہ کوئی بڑا خطرہ نہیں رہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف یا خادم پنجاب جس بے خوفی سے وفاق سے پنجاب تک مختلف محاذوں پر براہ راست یا بالواسطہ مصروف کار ہیں۔ وہ اس بات کا ثبوت ہے۔ ان حالات میں حمزہ شہباز کو بھی باہر نکلنا چاہئیے یا کم از کم اس تاثر کو دور کرنا چاہئیے کہ مستقبل کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کیلئے وہ کسی دھمکی سے مرعوب نہیں ہو سکتے۔