کیا حالات مارشل لاءکی طرف جا رہے ہیں؟
ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ اگلے ماہ چودہ اگست کو یوم آزادی مسلح افواج سے اظہار یکجہتی اور دہشت گردی کے خاتمے میں مسلح افواج کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے دن کی حیثیت سے منایا جائے گا۔ یہ فیصلہ وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات میں کیا گیا۔ دونوں قیادتوں کی جانب سے بار بار ملاقاتوں اور اظہار یکجہتی کے ذریعے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت اور فوج میں اختلافات پائے جاتے ہیں جو حلقے ایک مدت سے یہ تاثر پھیلا رہے تھے انہوں نے اب یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ چودہ اگست کو عمران خان کے سونامی مارچ جس کا نام مولانا طارق جمیل کے مشورے پر اب آزادی مارچ کردیا گیا ہے ملک میں انقلاب آجائے گا اور نواز حکومت ختم ہو جائے گی۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ حکومت مخالفین کا دعویٰ ہے کہ پھر فوج اقتدار میں آجائے گی۔ ادھر انقلاب کے ایک اور داعی کینیڈا سے آنے والے شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے گزشتہ روز صحافیوں سے ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم جو انقلاب لائیں گے اس میں عوام کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ جب راقم الحروف نے ان سے اس انقلاب مارچ کی تاریخ کے حولے سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ فی الحال میں نے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی ہے بہت جلد اس کا اعلان کروں گا۔تحریک انصاف نے ڈاکٹر طاہر القادری کی حمایت سے صاف انکار کردیا کہ اس کے رہنما عمران خان کو خود یہ زعم ہے کہ وہ عالمی سطح و شہرت کے واحد لیڈر ہیں اور وہ اندرونی و بیرونی قوتوں کی تائید و حمایت سے موجودہ حکومت کا تختہ الٹ سکتے ہیں۔ انہیں پہلے چار حلقوں میں بوگس ووٹنگ اور اعداد و شمار میں ہیر پھیر کی شکایت تھی‘ اب انہوں نے چار حلقوں کی دوبارہ گنتی سے دستبردار ہو کر پورے الیکشن کا آڈٹ کرانے کا مطالبہ کردیا ہے جس کی خاطر وہ چودہ اگست کو اسلام آباد تک آزادی مارچ کا اعلان کر چکے ہیں۔ ادھر امریکا نے واضح کردیا ہے کہ تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے کسی کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم امریکا کے خیال میں یہ مارچ پرتشدد نہیں ہونا چاہیئے اور اس کا مقصد یہ بھی نہ ہو کہ کسی نہ کسی طرح حکومت کو گرا دیا جائے۔ پاکستان کے اقتدار پرست اور طالع آزما سیاستدانوں نے پہلے نظریہ پاکستان کو اختلاف کا موضوع بنایا اور اب یوم آزادی کو یوم انتشار کے طور پر منانے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ دنیا کے نقشے پر چودہ اگست 1947ءکو یہ نیا وطن اس نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا جو ہر لحاظ سے نوع انسانی کی فلاح و بہبود کا مکمل منصوبہ ہے۔ سیاسی و فوجی قیادت کا اس سال یوم آزادی کو افواج پاکستان سے اظہار یکجہتی کے طور پر منانا اس لحاظ سے قابل فہم ہے کہ وہ پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ افواج پاکستان ہی شمالی وزیر ستان سے نقل مکانی کرنے والے بے آسرا سات آٹھ لاکھ افراد کی بنیادی ضروریات پوری کرنے اور ان کی بحالی کے کام میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ گذشتہ سال کے جس انتخاب کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان یکسر غلط قرار دے رہے ہیں انکی دو عملی کا عالم یہ ہے کہ اسی انتخابی نظام کے تحت کامیاب ہونے والے نمائندوں پر مشتمل انہوں نے صوبہ خیبر پختون خواہ میں حکومت بنا رکھی ہے اسی صوبائی حکومت کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ چودہ اگست کو حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے گا۔ دریں اثنا جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے گذشتہ روز کراچی میں دعوت افطار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”ملک فوجی بغاوت یا اسلحہ کے زور پر تبدیلی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ پرویز مشرف کی فوجی حکومت کو رخصت ہوئے بھی چھ سال سے زائد گزر چکے ہیں۔ اس عرصہ میں پہلے پیپلز پارٹی کی سول حکومت 5سال گزار گئی اور اب موجودہ حکومت کو بھی سوا سال ہو رہا ہے۔ لیکن اب بھی فوجی بغاوت کے خطرات منڈلا رہے ہیں آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ صرف ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ عوام کی اکثریت اس جمہوریت سے مطمئن نہیں ہے۔ اس میں قصور حکمرانوں کا ہے جو کسی بہتری کی آس نہیں دلاسکے۔ عام لوگوں کو اس سے غرض نہیںکہ طرز حکومت کیا ہے۔ پھر جب یہ صورتحال ہو تو فوجی بغاوت یا اسلحہ کے زورپر اقتدار پر قبضہ کرنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ طالع آزما بھی اس وقت کا انتظار کرتے ہیں جب حبس اتنا بڑھ جائے کہ لوگ لو کی دعا کرنے لگیں اور پھر وہ نجات دہندہ بن کر سامنے آتے ہیں لیکن پاکستان پر فوجی حکومتوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو آمر ملک کو مزید اندھیروں میں ڈال کر چلے گئے۔ ن لیگ کی حکومت اپنا ایسا کوئی کارنامہ بیان نہیں کرسکتی‘ جس سے عوام کو فائدہ پہنچا ہو۔ ایسی صورت حال میں جب عوام مایوس ہیں اور ایک بار پھر کچھ لوگوں کو فوجی بوٹوں کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔ کینیڈا کے ایک شہری شیخ الاسلام کا طرہ سجائے انقلاب کے نعرے لگا رہے ہیں اور حکمرانوں کو جیل میں ڈالنے کے دعوے کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ انقلاب برپا کیے بغیر واپس جانیوالے نہیں۔ ملک میں ایک مثبت انقلاب کی ضرورت تو ہے لیکن شیخ السلام کی چیخ پکار یا عمران خان کے ملین مارچ کا فائدہ کسی اور کو پہنچ سکتا ہے۔ صورت حال خطرناک ہے۔ ایسے میں تمام معقول سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر ایسی راہ نکالنی چاہیئے جس سے ایک طرف تو ممکنہ فوجی بغاوت کا خدشہ دور ہو‘ دوسری طرف حکومت پر بھی زور دیا جائے کہ وہ اپنی آئینی مدت پوری کرنے کیلئے اپنی خرابیوں کو دور کرے اور عوام کی حالت بہتر بنانے پر توجہ دے۔