اداروں کے سربراہوں کی تقرری کا کیس : معاملات عدالت میں آ جاتے ہیں‘ حکومت خود حل کیا کرے : سپریم کورٹ
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت+آن لائن) سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر سمیت اہم حکومتی اداروں میں سربراہوں کی عدم تقرری اور اس حوالے سے خواجہ آصف کیس کی وجہ سے حائل مشکلات اور آئینی رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے لارجر بنچ کی تشکیل کا حکم دے دیا ہے جس میں جسٹس اعجازچوہدری اور جسٹس گلزار احمد کو بھی شامل کیا جائے اور کہا ہے کہ لارجر بنچ اس بات کا فیصلہ کریگا کہ آیا خواجہ آصف کیس پر نظرثانی یا دوبارہ جائزہ لیا جاسکتا ہے یا نہیں‘ اٹارنی جنرل کو عدالت نے ہدایت کی ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے خواجہ آصف کیس میں نظرثانی یا ری وزٹ کرنے کے حوالے سے ہدایات حاصل کرکے عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کریں جبکہ آئی ایس آئی کے ملازم غلام رسول کیس میں عدالت نے فیصلے تک درخواست گزار کی جانب سے اپلائی کردہ ملازمت بارے معاملہ جوں کا توں رکھنے کا بھی حکم دیا ہے‘ چیف جسٹس ناصرالملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایف ایس ٹی میں چیئرمین جبکہ پنجاب میں ممبران کی عدم تقرری کی وجہ سے بڑی تعداد میں مقدمات زیر التواء ہیں‘ حکومت قانون سازی میں اتنی تاخیر کیوں کررہی ہے؟ یہ معاملہ ترجیحی بنیادوں پر حل ہونا چاہئے‘ جن اداروں کے سربراہان کی تقرری میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ان کا جلداز جلد تقرر کیا جائے جبکہ جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دئیے کہ حکومت تمام معاملات شفاف طریقے سے حل کرکے ہمیشہ کیلئے عدالتی شکایات کا ازالہ کیوں نہیں کردیتی‘ آئے روز معاملات عدالت میں آجاتے ہیں کوشش کریں کہ اس طرح کے معاملات حکومت خود ہی حل کرلیا کرے۔ انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز دئیے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی احکامات کی بجا آوری میں خواجہ آصف کیس رکاوٹ بن گیا ہے اور اس کی وجہ سے مشکلات درپیش ہیں اسلئے اہم اداروں کے سربراہوں کی تقرری کا معاملہ حل نہیں ہورہا اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اس پر نظرثانی کی درخواست دائر کرنا تھی وہ تو نہیں کی گئی اے جی نے کہا کہ آپ ہماری استدعا کو ہی نظرثانی سمجھ لیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کس قانون کے تحت ہم اس درخواست کو نظرثانی قرار دے دیں‘ حکومت کو جو ہدایات دی گئی تھیں ان پر عملدرآمد کرنا پڑے گا اس پر اے جی نے کہا کہ فیڈرل سروسز ٹربیونل کے سربراہ کا فیصلہ ہوگیا ہے جلد ہی اس کی تقرر کردی جائے گی اس حوالے سے وزیراعظم کو سمری بھی بھجوادی گئی ہے باقی آپ نے جو ہدایات دے رکھی ہیں انہیں آئینی تحفظ حاصل نہیں ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کسی اور کیس میں اس بارے بات کی گئی ہے تو اس پر اے جی نے ایم ڈی پی ٹی وی کی بات کی۔ وقفے کے بعد اٹارنی جنرل دوبارہ پیش ہوئے اور کہا کہ عبدالمالک ایم ڈی پی ٹی وی کیس میں یہ معاملہ اٹھایا گیا تھا۔ پنشن کیس میں عدالتی ہدایت کو قانون کے مطابق قرار نہیں دیا گیا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ تو ہم نے اپنے فیصلے پر خود ہی نظرثانی کی تھی آپ کیس کے میرٹ پر بات کریں۔ آپ ان پیراگرافس کا ریویو چاہتے ہیں یا نہیں۔ اے جی نے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا۔ یہ ہدایت 1992ء کے عدالتی فیصلے سے بھی میل نہیں کھاتی۔ اس کیس میں عدالتی اختیار سماعت کی بات کی گئی ہے کہ آیا عدالت اپنے کسی مقدمے کو ری وزٹ کرسکتی ہے یا نہیں۔ نظرثانی کا اختیار بھی کسی حد تک ہے اس کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ جسٹس ناصر نے کہا کہ معاملہ درخواست کے قابل سماعت ہونے کا نہیں۔ آپ ریویو کی بات کررہے ہیں آپ جو کچھ بھی کہنا چاہتے ہیں کیا آپ نے اس حوالے کیساتھ درخواست دائر کی ہے یا نہیں۔ اس میں بنیادی حقوق کا سوال نہیں ہے‘ عوامی مفاد کا بھی معاملہ نہیں ہے آپ کو کیسے سنیں یہ تو رجسٹرار کا نوٹ تھا جبکہ جس کیس کی بات کررہے ہیں وہ عدالتی فیصلہ ہے۔ بعض ججز موجود نہیں جنہوں نے خواجہ آصف کیس کا فیصلہ دیا تھا اگر ریویو کی درخواست آتی تو موجودہ ججز اس کیس کی سماعت کرکے فیصلہ آگیا ب تو نظرثانی کی درخواست ہی دائر کی جاسکتی ہے۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ آپ کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ آپ عدالتی فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں مگر اس پر عمل کرنے میں کچھ مشکلات ہیں۔
سپریم کورٹ