• news

میرٹ پر عملدرآمد ہونا ہے‘ عدالت اس لئے بیٹھی ہے : ہائیکورٹ

لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس خالد محمود خان نے 19 ٹوور آپریٹرز کمپنیوں کو 910 حجاج کا کوٹہ دینے کیخلاف دائر درخواست پر وفاقی حکومت، وزارتِ مذہبی امور، وزارتِ قانون، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، سٹیٹ بینک، مسابقتی کمیشن، وزارتِ خارجہ اور 19 ٹوور آپریٹرز کمپنیوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 6 اگست تک تحریری جواب طلب کر لیا۔ محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے حج پالیسی کے تحت 15000 کے کوٹہ کا ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا ہے مگر 19 ٹوور آپریٹرز جن کو وزارتِ مذہبی امور نے سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد بغیر کسی میرٹ و شفافیت کے کوٹہ جاری کیا تھا اُن کو اِس دفعہ بھی کوٹہ دیا جارہا ہے چارٹرڈ اکائونٹنٹ فرم نے ملی بھگت سے اُن کا میرٹ وزارتِ مذہبی امور کے دبائو کی وجہ سے بنا دیا ہے۔ سب کمیٹی سٹینڈنگ کمیٹی مذہبی امور نے 12 جون 2013 کو اپنی رپورٹ میں بڑا واضح طور پر یہ ثابت کر دیا کہ 19 ٹوور آپریٹرز کو کوٹہ میرٹ سے ہٹ کر اور پسند اور نا پسند کی بنیاد پر دیا گیا ہے کوئی میرٹ لسٹ نہیں بنی، سٹیٹ بینک، فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور ایس ای سی پی سے دستاویزات کی تصدیق نہیں کروائی گئی چارٹرڈ اکائونٹنٹ کمپنیوں کو بلوایا گیا اور انہوں نے اِس بات کا اقرار کیا کہ انہوں نے کسی کمپنی کا ہیڈ آفس نہیں دیکھا۔ وزارتِ مذہبی امور کے افسروں کے دبائو کی وجہ سے کمپنیوں کو میرٹ پر لے آئے۔ جسٹس خالد محمود خان نے ریمارکس دیئے کہ میرٹ پر عملدرآمد ہونا ہے اور عدالت میرٹ اور شفافیت پر عملدرآمد کیلئے بیٹھی ہیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل جاوید قصوری سے استسفار کیا کہ اِس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ وہ مدعا علیہان سے پوچھ کر عدالت کو بتائیں گے۔ ایک اور درخواست عدالت میں زیرِ التوا ء ہے اُس کا فیصلہ کر دیا جائے۔ درخواست گذار نے عدالت کو بتایا کہ وہ درخواست واپس لے رہے ہیں مگر اِس آئینی درخواست میں جو نکات اُٹھائے گئے ہیں اُن کا فیصلہ ہونا ہے۔ مسٹر جسٹس خالد محمود خان نے ریمارکس دیئے کہ حج پالیسی کے بارے میں عدالت فیصلہ دے چکی ہے محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ وہ فیصلہ صرف 15000 کوٹہ کی بابت تھا آج بھی نئی کمپنیوں کو کوٹہ نہیں دیا گیا وہ نئی کمپنیاں آج بھی سرکاری ریٹ پر حج کروانے کیلئے تیار ہیں۔
حج کوٹہ درخواست

ای پیپر-دی نیشن