اسلام آباد کی سکیورٹی یکم اگست سے 3 ماہ کیلئے فوج کے حوالے
اسلام آباد، لاہور (وقائع نگار خصوصی + خبر نگار خصوصی + خصوصی نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ) وفاقی حکومت نے امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں فوج تعینات کرنے کا فیصلہ کرلیا جبکہ تحریک انصاف نے کہا ہے کہ 14 اگست کو آزادی مارچ ہر صورت ہوگا جبکہ پیپلز پارٹی نے فوج تعینات کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے حکومت کا نامناسب فیصلہ قرار دیا ہے۔ فوج کو تین ماہ کیلئے امن و امان قائم کرنے کا اختیار ہوگا۔ یکم اگست 2014ء سے اسلام آباد میں فوج تعینات کردی جائیگی جو 31 اکتوبر 2014ء تک تعینات رہے گی۔ اس بارے میں وفاقی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت ریکوزیشن بھجوا دی۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے پارلیمنٹ ہائوس میں غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کو سکیورٹی خدشات لاحق ہیں جس کے پیش نظر اسلام آباد میں فوج کو امن و امان نافذ کرنے کی ذمہ داری سونپی جارہی ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد میں جلسہ ’’آزادی مارچ‘‘ یا مظاہرہ کرنے کی ضلعی انتظامیہ کو کوئی درخواست ہی موصول نہیں ہوئی، کسی بھی سیاسی جماعت کو اسلام آباد میں جلسہ و جلوس کرنے کی اجازت کیلئے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دینا ہوتی ہے، کوئی درخواست موصول ہوئے بغیر ہی جلسہ و جلوس کی کیسے اجازت مل گئی؟ وزیراعظم نوازشریف کی وطن واپسی پر ہی حکومت اس بارے میں کوئی فیصلہ کریگی۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ بحال ہوگیا، یہ معاہدہ گزشتہ حکومت میں قتل کے تین قیدیوں کے پاکستان آنے کے بعد رہائی کے بعد برطانیہ نے معطل کردیا تھا۔ یہ قیدی 2010ء میں دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ کے تحت پاکستان لائے گئے، انکو مقدمہ قتل میں 14، 14 سال سزا ہوئی تھی۔ موجودہ حکومت نے ان تین قیدیوں میں سے ایک کو گرفتار کرلیا جبکہ دو بیرون ملک فرار ہوگئے۔ حکومت انکی گرفتاری کیلئے کوشش کررہی ہے جس کے بعد برطانیہ نے قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ بحال کردیا۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ غیر معمولی سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت میں یکم اگست سے تین ماہ کیلئے فوج تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس کیلئے وزارت داخلہ نے وزارت دفاع کو ریکوزیشن بھجوا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضربِ عضب آپریشن کے ممکنہ ردعمل سے بچنے کیلئے ملک بھر میں سکیورٹی کو ہائی الرٹ کیا گیا ہے اور صوبائی حکومتوں کو خصوصی طور پر ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کیلئے پولیس اور سکیورٹی اداروں کو تیار رکھیں۔ دریں اثناء حکومتی ترجمان نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں سول انتظامیہ کی مدد کیلئے پاک فوج طلب کی ہے۔ فوج اہم سرکاری عمارتوں کی سکیورٹی سنبھالے گی۔ پاک فوج کوئیک رسپانس فورس کے طور پر سول انتظامیہ کی مدد کریگی۔ افواج حساس اور سٹرٹیجک حکومتی عمارتوں اور تنصیبات کی سکیورٹی پر مامور ہوگی۔ فوج کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ آرٹیکل 245 کے تحت کیا گیا۔ ترجمان وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ اسلام آباد کو فوج کے حوالے نہیں کیا جارہا، فوج کو پولیس، اسلام آباد میں تحفظ، امن کی فضا مستحکم بنانے کیلئے طلب کیا گیا۔ صوبائی دارالحکومتوں میں جہاں ضرورت ہوگی، یہی طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ فوجی دستے کوئیک رسپانس فورس کے طور پر بھی ذمہ داریاں نبھائیں گی۔ چند ہفتوں سے معاملے کا قانونی اور آئینی پہلوئوں سے جائزہ لیا جارہا تھا۔ این این آئی کے مطابق فوج کے دستے ائرپورٹ سمیت حساس مقامات پر پولیس کی معاونت کرینگے۔ ترجمان نے کہا کہ نہ اسلام آباد کو فوج کے حوالے کیا جارہا ہے اور نہ ہی اس سارے سلسلے میں پہلی اگست کی تاریخ کی کوئی نسبت ہے۔ دریں اثناء وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے اسلام آباد کو فوج کے حوالے کرنے کے تاثر کو غلط قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اسلام آباد میں فوج بلانے کا مقصد سیاسی سرگرمیوں کو روکنا نہیں، فوج کو وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد اسلام آباد میں حساس حفاظتی ذمہ داریاں سونپی گئیں، دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے فوج کو قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔ قبل ازیں اپوزیشن لیڈر خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں فوج تعینات کرنا حکومت کی بڑی ناکامی ہے حکومت اگر 15…؟؟ آبادی کے شہر کو نہیں سنبھال سکتی تو پھر پورے ملک کو کس طرح سنبھالے گی۔ خورشید شاہ نے مزید کہا کہ ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ عمران خان کو لانگ مارچ کرنے دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پہلے کہا تھا کہ وہ لانگ مارچ کے بعد واپس چلے جائیں گے۔ انقلاب کے لئے بھٹو بننا پڑتا ہے عوام کے لئے جان قربان پڑی ہر کسی کا کام انقلاب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف جلد ملک سے باہر چلے جائیں گے۔ حکومت نے عمران کو روکا تو یہ جمہوریت کیلئے خطرہ ہوگا۔ دریں اثناء سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہاہے کہ میں وزیر اعظم ہوتا تو عمران خان کو خود اسلام آباد میں ویلکم کرتا، دھرنے جمہوریت کا حسن ہیں، آرٹیکل 245 ہنگامی صورتحال کے لئے ہے، اسلام آباد میں یہ صورتحال نہیں، 14 اگست کے آزادی مارچ سے قبل حکومت کو فوج طلب نہیں کرنی چاہیے تھی،عمران پریشان نہ ہوں احتجاج کرنا سیاسی جماعتوں کاحق ہے، عدلیہ بحالی کیلئے ہونے والے مارچ کے وقت مجھے فوج طلب کرنے کامشورہ دیاگیا، میں اگر فوج طلب کرتا تو عدلیہ اور فوج میں تصادم ہوجاتا۔ فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ فوج طلب کرنے کے عوام پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ فوج بلانے کا مطلب سول انتظامیہ شہر کے امن میں مکمل ناکام ہے۔ فوج بلانے سے عدالت عالیہ معطل ہوگی۔ فوجی عدالتوں کی راہ ہموار کی جائے گی جو کسی صورت قبول نہیں۔ فوج بلانے کے اقدام سے دنیا میں بھی بدنامی ہوگی۔ دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ عمران خان کو دیئے جانے والے ہرجانے کے نوٹس کا جواب پارٹی کے قانونی مشیروں کے ساتھ مشاورت کے بعد دینگے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے فوج کو سکیورٹی کیلئے طلب کیا ہے یہ حکومت کا مسئلہ ہوگا، 14 اگست کا مارچ ہر صورت ہوگا، احتجاج ہمارا آئینی اور جمہوری حق ہے اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہونے دینگے۔ دریں اثناء اپوزیشن لیڈر پنجاب میاں محمود الرشید نے کہا ہے کہ اسلام آباد کی حفاظت کے نام پر فوج کی مدد لینے کا اعلان حکمرانوں کی طرف سے سیاسی شکست کا اعتراف ہے ان میں سیاسی جمہوری احتجاج کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں تحریک انصاف نے وفاقی دارالحکومت کو فوج کے حوالے کرنے کے حکومتی فیصلے کیخلاف لائحہ عمل طے کرنے کیلئے پارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس (آج) ہفتہ کو بنی گالہ میں پارٹی سربراہ عمران خان کی رہائشگاہ پر طلب کرلیا۔ پارٹی ذرائع کے مطابق اجلاس میں آزادی مارچ کو کامیاب بنانے کے حوالے سے مختلف تجاویز پر غور ہوگا۔ پارٹی ذرائع کے مطابق اجلاس میں وفاقی حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 145 کے تحت وفاقی دارالحکومت کو فوج کے حوالے کرنے کے معاملے پر مشاورت کے بعد ردعمل ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔بی بی سی کے مطابق وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لئے فوج کو انتظامیہ کی مدد کے لئے ایک ’’محدود مدت‘‘ کے لئے طلب کیا گیا ہے۔ ترجمان نے ’محدود مدت‘ کی وضاحت نہیں کی۔ البتہ ترجمان نے فوج کو ’’نوے روز‘‘ کے لئے طلب کرنے کی اطلاعات کی تردید کی۔