• news

’’زندہ رہیں گے مجید نظامی‘‘

علّامہ اقبالؒ نے اپنی ایک نظم ’’فلسفۂ غم‘‘ میں کہا تھا کہ  ؎
’’ایک بھی پتّی اگر کم ہو تو وہ گُل ہی نہیں
جو خزاں نادِیدہ ہو بُلبل وہ بُلبل ہی نہیں‘‘
دوسرے انسانوں کی طرح مَیں بھی کئی بار ’’خزاں دِیدہ بُلبل‘‘ ہُوا۔ خاص طور پر جب تحریک ِپاکستان کے دوران 1947ء میں میرے خاندان کے 26 افراد شہید ہوئے۔ پھر پاکستان میں میرے دادا جی، دادی اماّں، والدہ صاحبہ، والد صاحب اور باری باری میری دونوں بیگمات خالقِ حقیقی سے جا مِلیں۔ نامور شاعر، ادیب، صحافی اور دانشور، جناب احمد ندیم قاسمی (مرحوم) نے ہندوئوں کے اوتار شری کرشن جی مہاراج کے اُپدیش ’’گِیتا‘‘ کے ایک شلوک کو اپنے ایک شعر میں ڈھالتے ہوئے کہا تھا کہ  ؎
’’کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا
مَیں تو دریا ہُوں سمندر میں اُتر جائوں گا‘‘
26 جولائی کی الصبح صحافت کا مہر عالم تاب ’’ڈوب‘‘ گیا۔ علّامہ اقبالؒ، قائدِاعظمؒ اور مادرِ مِلّت کے افکار و نظریات کے مُفسّر اور نظریۂ پاکستان کے علمبردار جناب مجید نظامی اِس دارِ فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف رخصت ہُوئے تو نہ صِرف مَیں بلکہ محترم مجید نظامی کے لاکھوں ساتھی، دوست اور عقِیدت مند بھی اپنے اپنے گُلشن میں ’’خزاں دِیدہ بُلبل ہو گئے۔ سراپا شفقت محترم مجید نظامی (جنہیں مرحوم لکِھتے ہُوئے دِل پارہ پارہ ہوتا ہے) کے بارے میں اُن کا ہر دوست اور عقِیدت مند کا یہی خیال (بلکہ عقِیدہ) تھا/ ہے کہ جنابِ مجید نظامی اُس سے سب سے زیادہ شفقت اور محبت کرتے تھے۔ میرا بھی یہی پختہ عقِیدہ ہے۔
میرا جناب مجید نظامی سے تعلق فروی 1964ء میں ہُوا جب انہوں نے مجھے سرگودہا میں ’’نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگار مقرر کِیا۔ اُس وقت مجھے احساس ہُوا کہ مَیں ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کے ہتھیار سے مسلّح ہو کر بہت ہی طاقتور انسان بن گیا ہوں۔ ضلع سرگودھا آل انڈیا مسلم لیگ کی مخالف یونیسِٹ پارٹی کا گڑھ تھا۔ اُس میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کے آبائو اجداد نے انگریزی فوج میں شامل ہو کر خانۂ کعبہ پر گولیاں بھی چلائی تھیں۔ مَیں نے ’’نوائے وقت‘‘ میں اپنی خبروں، رپورٹس اور تبصروں میں پرانی اور نئی نسل کو قیامِ پاکستان کے مخالفین کے اصل چہرے دکِھاتا تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا۔
مئی 1991ء میں مَیں نے اپنا کالم ’’سیاست نامہ‘‘ روزنامہ  ’’پاکستان‘‘ سے ’’نوائے وقت‘‘ میں منتقل کِیا جو ڈیڑھ سال تک شائع ہُوا۔ ’’نوائے وقت‘‘ میں ’’سیاست نامہ‘‘ کا دوسرا دور جولائی 1998ء سے جون 1999ء تک رہا اور تیسرا دور اگست 2012 ء سے شروع ہُوا جو اب تک جاری ہے۔ مَیں جہاں بھی رہا جناب مجید نظامی سے میری عقِیدت اور محبت کا سلسلہ نہیں ٹوٹا۔ اِس کا کریڈٹ جناب مجید نظامی کے انگریزی روزنامہ "The Nation"  کے ایڈیٹر برادرِ عزیز سیّد سلیم بخاری اور ’’نظریہ ٔ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری جنرل اور جنابِ نظامی کے مُریدِ خاص سیّد شاہد رشید کو جاتا ہے۔ اِسی دوران (جب مَیں ’’نوائے وقت‘‘ میں کالم نہیں لکِھتا تھا) مَیں نے جنابِ مجید نظامی کی شخصیت اور قومی خدمات پر چار نظمیں لکِھیں۔ تیسری بار ’’نوائے وقت‘‘ جائن کرنے کے بعد دو نظمیںلکِھیں۔ ایک اُن کی سالگرہ پر اُردو میں اور دوسری انہیں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے ’’ڈاکٹریٹ‘‘ کی ڈگری مِلنے پر پنجابی میں نظم کا ایک بند تھا  ؎
ڈاکٹریٹ دِی ڈِگری اثر چوہان جی اِک اعزاز تے ہے
ایس ڈِگری تے طالب علِماں، اُستاداں نوں ناز تے ہے
کر کے قبول نظامی ہوراں ڈِگری دا مان ودھایا اے
بابا مجید نظامیؔ ہوراں تے ربّ رُسولؐ دا سایہ اے‘‘
میرے کالم کو جنابِ نظامی دیکھتے تھے اور اُن کی دفتر سے غیر موجودگی میں ڈپٹی ایڈیٹر برادرم سعید آسیؔ اور جب یہ کالم چھپ جاتا تھا تو جنابِ نظامی اُس کے خلاف بڑے سے بڑے سرکاری/ درباری کی شکایت نہیں سُنتے تھے۔ یہ رواج دوسرے اخبارات میں نہیں ہے۔ جناب مجید نظامی مجاہدِ تحریکِ پاکستان تھے۔ 1962ء میں ’’نوائے وقت‘‘ کے بانی جناب حمید نظامی کی وفات کے بعد جب محترم مجید نظامی نے بڑے بھائی کا قلم سنبھالا تو اُسی قلم کو ’’نظریۂ پاکستان کا عَلم‘‘ بنا دِیا۔ ہر دور میں فوجی آمریت اور جمہوری آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کِیا۔ قائداعظمؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کو ’’مادرِ مِلّت‘‘ کا خطاب دے کر فیلڈ مارشل صدر ایوب خان کے مقابلے میں جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں اُتارا۔ وزیراعظم نواز شریف سے مئی 1998ء میں دھماکا کرایا یہ کہہ کر کہ ’’وزیراعظم صاحب ! آپ فوراً ایٹمی دھماکہ کر دیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی اور مَیں بھی!‘‘
جنابِ مجید نظامی کی نمازِ جنازہ/ اور انہیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کئے جانے کے وقت قومی اسمبلی کے سپیکر جناب ایاز صادق، گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سمیت مرحوم کے ہزاروں نظریاتی دوست اور عقِیدت مند اور مختلف شعبوں کے اصحاب سوگوار تھے۔ گورنر پنجاب نے کہا کہ ’’محترم مجید نظامی قوم کے لئے مشعلِ راہ تھے۔‘‘ میاں شہباز شریف نے کہا کہ ’’جناب مجید نظامی صاحب کی رحلت کے بعد پاکستان کی قومی تاریخ کا ایک روشن با ب ختم ہو گیا ہے۔
محترم مجید نظامی کی سرپرستی اور چیئرمین شپ میں اُن کے قائم کئے گئے دو نظریاتی اداروں ’’تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ اور نظریہ ٔپاکستان ٹرسٹ‘‘ نے قیامِ پاکستان کے بعد پرانی اور نئی نسل کی نظریاتی تربیت کے لئے اہم کردار ادا کِیا۔ ’’تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ کی طرف سے گذشتہ 24 سال میں تحریک پاکستان کے 1150 کارکنوں کو گولڈ میڈلز سے نوازا گیا۔ اُن میں میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہان بھی شامل تھے۔20 فروری 2014 ء کو ایوانِ کارکنانِ پاکستان لاہور میں چھٹی سہ روزہ نظریۂ پاکستان کانفرنس‘‘ کا پہلا دِن تھا۔ مَیں نے سیّد شاہد رشید کی فرمائش پر کانفرنس کے لئے مِلّی ترانہ لکِھا۔ جنابِ نظامی نے مجھے ’’شاعرِِ نظریۂ پاکستان‘‘ کے خطاب اور ایک "Shield" سے نوازا۔
جنابِ مجید نظامی نہ صِرف روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ "The Nation" اور دوسری مطبوعات ’’وقت نیوز‘‘ ’’تحریک ِپاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ اور ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ سے وابستہ سینئر اور جونیئر ارکان کے لئے بھی "Shield" (ڈھال) کی حیثیت رکھتے تھے۔ جناب نظامی کی جاری کردہ مطبوعات کی ساری ذمہ داری محترمہ رمِیزہ نظامی اور تحریک ِپاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ اور ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کی ذمہ داری کرنل (ر) جمشید احمد خان ترین اور جنابِ مجید نظامی کے دوسرے ساتھیوں پر آن پڑی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جنابِ نظامی کے افکار و نظریات کی روشنی میں یہ اکابرین، اپنا اپنا مشن جاری رکھیں گے۔ علّامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ  ؎
’’مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جُدا ہوتے نہیں‘‘
اِس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ ’’جب تک پاکستان ہے زندہ، زندہ رہیں گے مجید نظامی!‘‘

ای پیپر-دی نیشن