تصویریں اور تقدیریں
دو جگہوں پر شہباز شریف کو دیکھ کر بے قراری میں اضافہ ہوا وہ قبرستان میں عظیم الشان شخصیت ڈاکٹر مجید نظامی کی قبر کے سرہانے کھڑے تھے۔ پھولوں کی چادر چڑھائی وہ انہیں لحد میں اتارنے والوں میں شامل تھے۔ کئی بار آب دیدہ ہوئے۔ کل میں نے لکھا تھا کہ وہ گھر آئے۔ رمیزہ نظامی کے پاس کھڑے رہے۔ مجید صاحب کے آخری دیدار کے لئے ان کے ساتھ گھر کے اندر گئے۔ یہ وہ تعلق کی خوشبو تھی جس میں مہکتے سسکتے شہباز شریف نظر آئے۔ مجید نظامی بھی شہباز شریف کے لئے ایسے جذبات رکھتے تھے۔ انہوں نے شہباز شریف کو شہباز پاکستان خطاب دیا تھا۔ وہ اس خطاب کو سچ کر دکھائیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے مجید نظامی کی طرف سے دیئے گئے خطاب ’’مردحر‘‘ کی لاج نہ رکھی۔ وہ بلاشبہ پاکستان کی روایتی سیاست میں ضبط و تحمل والے بہادر اور طاقتور آدمی ہیں۔ اب بھی ان کی سیاست کئی رنگ دکھا رہی ہے مگر وہ حریت فکر حریت ایمان حریت سیاست حریت کشمیرکے لئے کچھ نہ کر سکے۔
مجھے یاد ہے کوٹ لکھپت جیل میں ایک ملاقات کے دوران زرداری صاحب نے مجھ سے کہا کہ لوگ ابھی سے میرے ساتھ کئی توقعات باندھ چکے ہیں۔ تو میں نے انہیں کہا تھا کہ اللہ آپ کو موقعہ دے تو آپ ان توقعات پر پورا اتریں۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ زرداری صاحب کو پہلے سے پتہ تھا کہ وہ اس پوزیشن میں آئیں گے کہ کچھ کر سکیں۔ انہوں نے اپنی سیاست کی دھاک بٹھانے کے علاوہ کچھ نہ کیا۔ اپنے ’’عزیز دوستوں‘‘ کو موقعہ دیا کہ وہ امیر کبیر ہو جائیں۔ ہمارے دوست شیخ ریاض نجی ٹی وی کے مالک بن گئے خوشی ہے کہ مختصر مدت میں انہوں نے اور ان کے بہت لائق بیٹے نے اسے کامیاب چینل بنا دیا۔ ایک اور ’’دوست‘‘ ڈاکٹر قیوم سومرو کو سنیٹر بنوایا۔ ڈاکٹر سومرو نے زرداری صاحب کی خدمت کی انتہا کر دی۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے اسے یاد رکھا۔ وہ ایسے ہی دوستوں کو یاد رکھتے ہیں؟ مگر وہ پاکستان کے لئے کچھ نہ کر سکے۔ وہ سندھ کے لئے بھی کچھ نہ کر سکے۔ انہوں نے اچھا کام یہ کیا کہ فاروق ایچ نائیک کو چیئرمین سینٹ بنانے کے بعد نیئر بخاری کو چیئرمین سینٹ بنایا۔ یہ ایساہی کام ہے جیسے شریف برادران نے چودھری سرور کو گورنر پنجاب بنایا۔ عبدالرب نشتر اور ملک امیرمحمدخان نواب کالاباغ کے بعد وہ تیسرے گورنر ہیں جو یاد رکھے جائیں گے۔ نواب آف کالا باغ حمید نظامی کی تعزیت کے لئے آئے تو مجید نظامی سے کہا کہ میں نوائے وقت بند کر دوں گا جب صدر ایوب کہے گا مگر تم ’’جنا‘‘ نہیں ہوگے کہ اپنے مرحوم بھائی کے نقش قدم پر نہ چلے۔ دنیا والوں نے دیکھا کہ مجید نظامی نے اپنے آپ کو مرد ثابت کیا بلکہ مرد میدان ثابت کیا اس کی مثال پاکستان کی صحافتی تاریخ میں نہیں ملتی۔
مرحوم حمید نظامی کی عظمتوں جراتوں کو سلام مگر خدا کی قسم مجید نظامی اپنے جلیل القدر بھائی حمید نظامی سے پیچھے نہ تھے۔ انہیں اللہ نے ہمت اور موقعہ دیا اور انہوں نے بتا دیا کہ اللہ موقعہ دے تو اسے سچ کر دکھانا چاہئے۔ صدر زرداری کو موقع ملا تھا مگر وہ فائدہ نہ اٹھا سکے۔ ان کے ساتھی جسے فائدہ سمجھتے ہیں اس میں نقصان بہت ہیں۔ مجھے دوستوں نے کہا کہ تم نوائے وقت میں زرداری صاحب کے لئے لکھ کر دکھائو تو مانیں۔ مجھے کون مانے گا کہ میں مجید نظامی کی جوتیوں کی خاک کے برابر نہیں ہوں۔ میں نے لکھا اور انہوں نے شائع کرنے کی اجازت دی۔ انہیں بھی بڑی توقعات ’’صدر‘‘ زرداری سے تھیں مگر؟ اور یہ مگر ’’مگر مچھ‘‘ بن گیا ہے۔
جب گھر سے ایمبولینس ایک کوہسار صفت انسان مجید نظامی کو لے کے چلی تو اشکوں امیدوں اور آرزوئوں کا ہجوم ان کے ساتھ تھا۔ ایمبولینس میں جسٹس آفتاب فرخ نظامی صاحب کے ساتھ تھے، وہ اس شاندار زندگی کا زندگی بھر ساتھ دیتے رہے اور اب ابدی زندگی کے سفر میں بھی ان کے ساتھ تھے۔ میری بیٹی تقدیس نیازی کی شادی میں مجید نظامی تشریف لائے تو بھی جسٹس آفتاب ان کے ساتھ تھے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ وہ ہمیشہ ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ وہ ایمبولینس میں بیٹھ رہے تھے تو شہباز شریف پاس کھڑے تھے۔ شہباز شریف مجید نظامی کے خطاب شہباز پاکستان کو سنبھال کر اپنے پاس رکھیں۔ وہ قبرستان سے ایک بار پھر گھر آئے اور رمیزہ بی بی کے پاس بیٹھے رہے۔ محترمہ فاطمہ جناح کو مادر ملت کا خطاب بھی مجید نظامی نے دیا تھا جسے سب پاکستانیوں نے فخریہ قبول کیا۔ مادر ملت نے اس خطاب کو سچ کر دکھایا۔ ڈاکٹر رفیق احمد کو ’’پسر پاکستان‘‘ کا خطاب بھی نظامی صاحب نے دیا۔ انہوں نے بزرگی کے باوجود اس پر فخر کیا۔
شہباز شریف مجید نظامی کی آخری آرام گاہ کے سرہانے کھڑے اچھے لگ رہے تھے۔ اور گجرات میں ایک سفاک زمیندار کے ظلم کے شکار بچے کے پاس ہسپتال میں بیٹھے ہوئے بھی اچھے لگ رہے تھے۔ بچے کے دونوں بازو کٹ گئے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ میں بچے کے بازؤ واپس دلائوں گا۔
انہوں نے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو معطل کر دیا۔ ہسپتال کے ایم ایس کو بھی ہٹادیا۔ یہ لوگ مظلوموں کے ساتھی نہیں ہیں۔ ظالموں کے ساتھی ہیں۔ سارے ظالم اس ملک میں حاکم بنے بیٹھے ہیں۔ شہباز شریف زیادتی کا نشانہ بننے والی بچیوں کے پاس بھی جاتے رہتے ہیں۔ میری ایک ہی گزارش ان سے ہے کہ ایک بار ان درندوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے تو پھر ظلم بے انصافی کی ساری نشانیاں ہمارے معاشرے میں ختم ہو جائیں گی۔ تب مجید نظامی کی روح کو بھی چین ملے گا۔ شہباز شریف کا یہ جملہ بھی بہت دفعہ اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ میں یہ کام نہ ہونے تک چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ ہم ان کی ساری بے چینیوں کے لئے دعا کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ایک تصویر اور بھی ہے جس نے میرے دل کو بے چین کیا ہے۔ تصویر تقدیر کا پتہ دیتی ہے ۔ صوبائی وزیر رانا مشہود میٹرک کے امتحان میں اعلی نمبروں سے پاس ہونے والے بچوں کو ایوارڈ دے رہے ہیں۔ رانا صاحب کی محبت ان کے چہرے سے نظر آ رہی ہے۔ ان نمایاں بچوں میں سے ایک بچہ ہے جس نے سموسے بیچ کر گھر والوں کی کفالت کی ہے۔ رانا صاحب سے گزارش ہے کہ وہ سرکاری سطح پر بچے کی مدد بھی کریں تاکہ وہ سموسے نہ بیچے سموسے خریدے اور گھر والوں کو کھلائے۔ ایک ایسا پاکستانی بنے جس پر ہم سب فخر کر سکیں۔