بھارت کی جانب سے ڈبلیو ٹی او معاہدہ ویٹو کرنے سے دنیا کو بڑا نقصان ہوگا: مبصرین
جنیوا (رائٹرز) بھارت نے جمعرات کے روز اپنی سخت سفارتکاری کے ذریعے سے عالمی تجارتی معاہدے کو بلاک کر دیا ہے۔ اس معاہدے میں 19سال قبل وجود میں آنے والی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے بعد پہلی مرتبہ عالمی تجارتی اصلاحات متعارف کرائی گئی تھیں۔ تجارتی سفیروں نے بھارتی ویٹو کے باعث ہونے والے نقصانات پر روشنی ڈالی ہے۔ ماہرین کے مطابق بھارت ورلڈ ٹریڈ ریفارم کا حامی رہا ہے اور یورپی یونین اور امریکہ کی زیرسرپرستی چھوٹے گروپوں پر تنقید کرتا رہا ہے۔ لیکن اس ویٹو کی وجہ سے ایسے گروپوں کو مزید عروج ملے گا۔ اس ویٹو کی وجہ سے ڈبلیو ٹی او کے خاتمے کا آغاز ہو گا۔ علاقائی معاہدوں کی وجہ سے دنیا الگ الگ تجارتی بلاکس میں تقسیم ہونے لگے گی۔ بھارت کی حالیہ حکومت کاروبار کی حامی تصور کی جا رہی تھی مگر اس نے تجارتی عمل میں سہولت کے ایک معاہدے میں رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس معاہدے سے دنیا کی معیشت میں 10کھرب ڈالر کا اضافہ ہونا تھا اور ترقی پذیر ممالک میں ایک کروڑ 80 لاکھ افراد جبکہ دنیا بھر میں 2کروڑ 10 لاکھ افراد کو روزگار ملنا تھا۔ بھارت دسمبر میں اس معاہدے کی حامی بھر چکا تھا۔ اب اس پر اعتراضات سے قبل اس نے اس معاہدے پر مذاکرات بھی نہیں کئے جس سے دنیا کو شدید حیرانی ہوئی۔ دنیا کے لئے یہ بھی حیران کن تھا کہ بھارت نے اس معاہدے پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا۔ بھارت بالی میں ہونے والے اجلاس میں پہلے ہی اپنی خواہش کے مطابق فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے اپنے لئے مراعات حاصل کر چکا تھا۔ ڈبلیو ٹی او فوڈ سبسڈی پر عارضی اقدامات کئے اور 2017ء تک اس مسئلے کے مستقل حل پر بھی تیار تھی۔ بھارت نے اپنے ہی موقف سے اختلاف کرتے ہوئے 4سال کے بجائے مسئلہ فوری حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس کو 2سال کا ٹائم فریم دیا گیا مگر اس نے پھر بھی انکار کر دیا۔ بھارت کو دسمبر میں بالی کے اجلاس میں خوراک کے ذخائر جمع کرنے کے حوالے سے جو رعایت ملی تھی جو ڈبلیو ٹی او کے قوانین کی خلاف ورزی شمار ہوتی تھی۔ اس ویٹو کے بعد بھارت کو دوبارہ قانونی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس ویٹو سے بھارت تنہا ہو گیا ہے۔ کیوبا، وینزویلا اور بولیویا کی حمایت کے باوجود روس، چین، برازیل اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک نے اس کی مخالفت کی ہے۔