یوسف رضا، شہلا رضا، فیصل رضا عابدی اور رضا مندی
”صدر زرداری امریکہ موج میلہ کرنے گئے ہوں گے مگر لوگوں نے اسے موج مستی بنا دیا۔ یار لوگوں نے کیسی کیسی باتیں بنائیں۔ یہ باتیں بھی کریں گے۔ ایک افطار ڈنر تھا جس میں کئی مذہبوں کے لوگ تھے۔ مجھے یقین ہے کہ ایک بھی آدمی نے روزہ نہیں رکھا ہو گا۔ ”صدر“ زرداری نے تو بالکل نہیں رکھا ہو گا۔ پاکستان میں بھی اکثر افطار پارٹیوں میں روزہ داروں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے بلکہ کم سے بھی کم ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے بے چارہ حسن رضوی مرحوم مجھ سے کہتا تھا کہ کوئی چیز بچا کے رکھ لینا میں نے روزہ کھولنا ہے۔ اکثر افطاریاں پانچ دس منٹ پہلے ہی شروع ہو جاتیں اور ایسی کھلبلی مچتی کہ کچھ نہ پچتا۔ ایسے ہنگامے افراتفری اور نفسانفسی میں برتن بھی محفوظ نہ رہتے۔ مجھے معلوم ہے کہ بغیر روزے کے افطاری کا جو مزہ ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ جس نے روزہ نہ رکھا ہو اسے بے روزگار کہتے ہیں۔ آج کل پاکستان میں بے روزگاری بھی بہت ہے۔
”صدر“ زرداری امریکہ گئے۔ وہ امریکہ جاتے رہتے ہیں۔ بلکہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ اس دفعہ ٹائمنگز کی اہمیت ہے۔ انہی رتوں نواز شریف سعودی عرب چلے گئے تھے۔ نو دس دن کے لئے۔ وہ اعتکاف تو بیٹھے نہیں تو پھر کہاں بیٹھ گئے تھے۔ سعودی عرب جانے کے لئے بڑی آسانی ہے۔ بس عمرہ کرنے کا بہانہ کافی ہے۔ کہتے ہیں کہ عمرہ اقتدار کی عمر بڑھا دیتا ہے۔ سعودی عرب سے واپسی کے بعد نواز شریف کے بیانات کا انداز بدل گیا ہے۔ پاکستان میں آج کل اس حوالے سے خواجہ سعد رفیق بہت قابل ذکر ہے۔ وہ عید مبارک ملتے ہوئے بھی 14اگست کو یاد رکھتے ہیں۔ 14اگست آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ قوم ملک سلطنت کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ارادوں اور آرزوﺅں کا پتہ چلتا رہتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے لئے پارٹی کی پالیسی کا اظہار ہوتا ہے مگر کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ نواز شریف کے حق میں ہیں؟ البتہ انہیں اپنی باری کی بہت فکر ہے بلکہ فکرمندی ہے۔ تیسری بار وزیراعظم کے بعد تیسری بار صدر؟
”صدر“ زرداری نے بڑا دھانسو قسم کا بیان دیا۔ رضا ربانی قمرالزمان کائرہ اور خورشید شاہ کہتے ہیں کہ یہ بیان نواز شریف کے لئے ایک ہدایت نامہ ہے اور نعمت غیرمترقبہ ہے۔ نواز شریف کا خیال ہے کہ میں کب بادشاہ بنتا ہوں مجھے مغل بادشاہ پسند تھے۔ اب سعودی عرب کے بادشاہ پسند ہیں۔ سعودی عرب کے بادشاہی نظام میں جو جمہوریت ہے وہ جمہوریت میں بھی نہیں ہے۔ کم از کم پاکستانی جمہوریت میں تو نہیں ہے۔ ہمارے برسراقتدار آنے کے بعد کچھ کچھ آنے لگتی ہے۔ کئی بار سے انتقال اقتدار کا مرحلہ کتنی آسودگی سے ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے شاہی خاندان کے بھی کسی آدمی کی جرات نہیں ہے کہ کچھ گڑ بڑ کرے۔ شاہ فیصل کے قتل کے بعد بھی بڑے آرام سے انتقال اقتدار ہو گیا تھا۔ اس طرح تو ہمارے ہاں وزیراعظم نہیں آتے۔ صدر تو بالکل نہیں آتے۔ فوجی صدر آتے ہیں مگر جاتے بڑی مشکل سے ہیں۔ ہم صدر لائیں تو وہ ممنون بھی رہتے ہیں اور کچھ کرتے بھی نہیں۔ ہم صدر نہیں لائے تھے تو انہوں نے بھی سویلین ہوتے ہوئے وہی کیا جو مارشل لا میں ہوتا ہے۔ مارشل لا اور ماشااللہ ملتے جلتے ہیں۔ اس کے لئے جزاک اللہ مگر کبھی کبھی تو استغفراللہ پڑھنے کا بھی کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ شاہی آمریت قابل اعتراض نہیں ہے مگر فوجی آمریت نہیں ہونا چاہئے۔ کچھ لوگ سویلین آمریت یعنی جمہوری آمریت کی بات بھی کرتے ہیں۔ نجانے ان کا ایجنڈا کیا ہوتا ہے۔ ایجنڈا ملتا جلتا ہوتا ہے مگر یہ دھرنے اور لانگ مارچ اب آزادی مارچ بننے لگے ہیں۔ آزادی تو ہم نے دے رکھی ہے۔ تیسری بار وزیراعظم بننے کی آزادی؟ پرویز رشید نے ٹھیک کہا کہ لانگ مارچ کوئیک مارچ بھی بن جاتا ہے۔
ابھی فوج کو خود جمہوریت والوں نے اسلام آباد کے لئے بلایا ہے۔ وہ ڈبل مارچ کرتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے ہیں۔ یہ ٹرپل مارچ بھی بن سکتا ہے۔ پچھلے دنوں سپیکر ایاز صادق کے پاس بھاگے بھاگے قومی اسمبلی کے اہلکار گئے کہ فوج کا ٹرپل ون بریگیڈ اسمبلی پہنچ گیا ہے تو ایاز صادق نے نمبر ٹنگ لئے کہ وہ میرے کہنے پر آئے ہیں۔ فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔
میں ”صدر“ زرداری کی امریکہ یاترا کا ذکر کر رہا تھا وہاں افطار ڈنر میں جوبائیڈن نائب صدر امریکہ بھی تھے۔ رسماً یا اتفاقاً سابق صدر زرداری کی ملاقات ہو گئی۔ یہ حسن اتفاق چند منٹوں کا بھی تھا جسے کئی گھنٹوں کا سوئے اتفاق بنا دیا گیا۔ ڈپٹی سپیکر سندھ شہلا رضا نے بیان داغ دیا اور فضا داغدار ہو گئی۔ ”صدر“ زرداری کو نواز شریف نے بھجوایا ہے۔ انہوں نے کہا میں خدا کا گھر دیکھنے جا رہا ہوں۔ وہاں صرف گھر والے ہوں گے۔ آپ امریکہ جائیں۔ خدا کی شان دیکھیں۔ اور ہمارے لئے کوئی شاندار خبر لے کے آئیں۔ شہلا رضا نے کہا کہ وہ امریکہ کو اپنا وعدہ یاد دلانے گئے ہیں کہ تین الیکشنوں تک مارشل لا نہیں لگے گا اور تیسری باری ہماری ہے۔ ماشااللہ جسے کہتے ہیں ہم ماشالا بنا دیتے ہیں۔ یہ مارشل لا سے ملتی جلتی چیز ہے۔
اس سے پہلے یوسف رضا نے بیان داغا۔ بیان دینا کچھ اور ہوتا ہے۔ بیان داغنا کچھ اور ہوتا ہے۔ یہی فرق ہے کہ کوئی جیالا خود بول رہا ہے یا ”صدر“ زرداری کے اشارے پر بول رہا ہے۔ بول میری مچھلی کتنا پانی۔ پانی سر سے گزرنے والا ہے۔ یوسف رضا نے کہا کہ صدر مشرف کی بیرون ملک روانگی کی ڈیل میں نواز شریف برابر کے شریک تھے۔ تب وہ ہماری حکومت میں بھی شریک تھے تو اب کس شریکے کی بات کرنے کرانے لگے ہیں۔ اس موقع پر یہ بیان اور پھر شہلا رضا کا بیان؟ ٹائمنگز دیکھیں۔ پاکستانی سیاست میں آج کل ٹائمنگز صرف ”صدر“ زرداری ہی جانتے ہیں۔ ”صدر“ زرداری کی جیوبائیڈن سے چند لمحوں کی ملاقات میں سے کیا کیا کچھ نکالا گیا ہے۔ یہ اصل میں ”صدر“ زرداری کے امریکی سفیر حسین حقانی کے ذہین رسا کی کارستانی لگتی ہے۔ یہ وہی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے ہی نواز شریف کو بے نظیر بھٹو کی قابل اعتراض تصویریں ہوائی جہاز سے گرانے کا مشورہ دیا تھا۔ یہ کام کسی سیاسی اور اخلاقی روایت کے حوالے سے مناسب نہ تھا مگر اب بی بی شہید ہو چکی ہے۔ وہ ہمیشہ حسین حقانی کی مہمان بنتی تھی۔ اپنی یہ تصویریں اس نے بھی دیکھی ہوں گی۔ ”صدر“ زرداری کے بھی میزبان خصوصی وہی ہوتے ہیں۔ شیری رحمان نے پاکستان میں رحمان ملک کے مشورے نہیں مانے تھے مگر امریکی سفارت کاری میں سب کچھ حسین حقانی کے مشورہ پر کرتی رہیں۔ امریکہ میں آج کل ”صدر“ زرداری کے مشیر حسین حقانی ہیں۔ حکومت میں مشیر تو زبان بند رکھتے ہیں مگر حکومت سے باہر انہیں زبان درازی سے کوئی نہیں روک سکتا۔
یوسف رضا اور شہلا رضا کے بعد صرف فیصل رضا باقی ہیں۔ اب ان کی طرف سے کسی دھواں دھار بیان کا انتظار کرنا چاہئے۔ مگر فیصل رضا عابدی جیسے غیور اور دوستدار آدمی کے لئے یہ کہنا کہ وہ ”صدر“ زرداری کی ہدایت کے مطابق بدلے گا ممکن نہیں ہے۔ وہ سینٹ سے بھی مستعفی ہو گیا تھا اور یہ استعفیٰ ”صدر“ زرداری کے طلب کرنے پر نہیں دیا گیا تھا۔ ”صدر“ زرداری کو یوسف رضا اور شہلا رضا جیسے خواتین و حضرات کی ضرورت ہے مگر اسے سیاست کرنا آتی۔ اس کا استعمال وہ دوستوں کے ساتھ بھی کرتا رہتا ہے۔ یقین نہ آئے تو ڈاکٹر قیوم سومرو اور ڈاکٹر بابر اعوان سے پوچھ لیں۔