• news

مسلم لیگ میں ”ثقافتی انقلاب؟“

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رُکن اور پنجاب اسمبلی کے مِڈل کلاس وزیرِ اعلیٰ جنابِ حنیف رامے نے مجھے یہ واقعہ سُنایا اور رامے صاحب کو جناب ذوالفقار علی بھٹو نے خود سُنایا تھا۔ بھٹو صاحب نے بتایا کہ ”مَیں نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے عوامی جمہوریہ چِین کے قائدِ انقلاب اور چیئرمین ماﺅزے تُنگ سے مُلاقات کی تو اُن سے میرے پاک چین دوستی تعلقات پر مذاکرات ہُوئے۔ اچانک چیئرمین ماﺅ نے مُجھ سے کہا ”ینگ مَین! مَیں تمہیں واچ کر رہا ہُوں۔ تمہارا مستقبل شاندار ہے۔ ایک دِن تم اپنی سیاسی پارٹی بناﺅ گے۔ جب تم اپنی پارٹی بنا لو تو تُم اُس کی وقتاً فوقتاً تطہِیر کرتے رہنا، اُسے نئے سِرے سے منظم کرتے رہنا۔“ پھر چیئر مین ماﺅ نے بتایا کہ ”انقلابی سیاسی پارٹی میں تطہِیر کا عمل اِس طرح ہوتا ہے کہ جیسے کسی تالاب کا سارا پانی نکال کر اُس میں تازہ پانی بھر دِیا جائے۔“
30 نومبر 1967ءکو جنابِ بھٹو کے دو اڑھائی سو دوستوں، ساتھیوں اور عقِیدت مندوں نے لاہور میں انجینئر ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں اکٹھے ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی اور بھٹو صاحب کو اُس کا بِلا مقابلہ چیئرمین ”مُنتخب“ کر لِیا۔ پارٹی کے دوسرے عہدوں پر (اُوپر سے نیچے تک) جناب ِبھٹو یا اُن کے نامزد کردہ ”پارٹی لِیڈروں“ نے نامزدگیاں کر دیں۔ جناب جے اے رحیم کو خود بھٹو صاحب نے پارٹی کا مرکزی سیکرٹری جنرل نامزد کِیا تھا۔ پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹوکمیٹی سب سے بڑا پالیسی ساز ادارہ تھا لیکن اُس سے بھی اُوپر تھی تین لِیڈروں پر مشتمل پارٹی کی "Principle Committee" (اصولی کمیٹی)۔ اصولی کمیٹی کے ارکان کو بھی چیئر مین بھٹو نے نامزد کِیا تھا۔ اُن میں ایک تھے جنابِ بھٹو دوسرے حنیف رامے اور تیسرے ڈاکٹر مبشر حسن۔
1965ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران عوامی جمہوریہ چین نے پاکستان کی بھرپور امداد کی تھی۔ پاکستان کی حکومت اور عوام ۔چیئر مین ماﺅزے تُنگ اور وزیرِاعظم چو این لائی اور عوامی جمہوریہ چین کے عوام کی بہت عزّت کرنے لگے تھے۔ پاکستان میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں دو گروپوں ”چین نواز“ اور ”روس نواز“ میں تقسیم ہو گئی تھیں۔ مشرقی پاکستان کے مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی ”نیشنل عوامی پارٹی“ اور مغربی پاکستان میں جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی چین نواز جماعتیں سمجھی جاتی تھیں۔ بھٹو صاحب اپنی پارٹی کے صدر یا "President" کے بجائے "Chairman" کہلائے۔ چیئرمین ماﺅزے تُنگ کی طرح جنابِ بھٹو عوامی جلسوں میں ماﺅ کیپ اور پتلون اور چینی طرز کا بند گلے کا کوٹ پہن کر آتے اورجب وہ چیئرمین ماﺅ کے انداز میں اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتے تو جلسہ¿ عام کے شُرکاءخاص طور پر نوجوان رقص کرتے اور بھٹو صاحب کے حق میں نعرے لگاتے۔
دراصل وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے جناب بھٹو عوام و خواص کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو گئے تھے کہ وہ خود پاک چین دوستی کے معمار ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ہمارے اکثر عُلماءکو سوویت یونین کا ”کمیونزم / سوشلزم“ تو اسلام کے لئے خطرہ نظر آتا تھا لیکن پاکستان اور پاکستان کے عوام کے لئے چینی قیادت اور عوام کے خلوص اور آزمودہ دوستی کی وجہ سے اُنہیں ”چینی کمیونزم / سوشلزم “ سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ چنانچہ جب دسمبر 1970ءکے عام انتخابات سے قبل 113 عُلماءنے بھٹو صاحب اور اُن کی پیپلز پارٹی کے اقتصادی نظام ”سوشلزم یا اسلامی سوشلزم “ کے خلاف کُفر کا فتویٰ دِیا تو عوام نے اُس فتوے کو مسترد کر دِیا۔ جنابِ بھٹو کی پارٹی قومی اسمبلی میں دوسری بڑی پارٹی بن کر اُبھری۔
پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد سویِلین چیف مارشل لاءصدرِ پاکستان اور پھر وزیرِاعظم ”منتخب“ ہو کر جناب ذوالفقار علی بھٹو ماﺅ کیپ اور چیئرمین ماﺅزے تُنگ کی طرز کا کوٹ پتلون تو پہنتے رہے لیکن وہ اپنے وعدوں کے مطابق ”غریبوں کے حق میں انقلاب“ نہیں لاسکے اور نہ ہی انہوں نے اپنی پارٹی کو ،عوامی جمہوریہ چین کی انقلابی پارٹی کی طرز پر منظم کِیا۔ چیئرمین ماﺅزے تُنگ نے مفلوک اُلحال کسانوں کی سُرخ فوج کی قیادت کرتے ہوئے۔ 1949ءمیں عوامی جمہوریہ چین کو ایک خود مُختار اور انقلابی مُلک بنا دِیا۔ پھِر انہوں نے عوام کی خوشحالی اور ترقی کے لئے وہاں ”اقتصادی انقلاب“ بھی برپا کر دِیا۔ چیئرمین ماﺅ اپنی زندگی میں ہی اپنی پارٹی اور چین میں ”ثقافتی انقلاب“ لے آئے۔ پھر چین نے ”اوپن ڈور پالیسی“ اپنائی اور بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے اپنے دروازے کھول دئیے۔ اقتصادی لحاظ سے اب عوامی جمہوریہ چین ایک عظیم قوّت ہے۔
جنابِ بھٹو نے اپنی زندگی میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ذاتی ملکیت بنائے رکھا۔اُن کے بعد پارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کی ذاتی ملکیت رہی اور محترمہ کے قتل کے بعد اُن کی (برآمدہ اور مُبیّنہ) وصِیت کے مطابق جناب آصف علی زرداری کی ملکیت ہے (برائے نام بلاول بھٹو زرداری اُس کے حِصہّ دار ہیں )۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں اپنے شوہر نامدار کو پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا۔ چیئرمین ذوالفقار علی بھٹوکی پھانسی، محترمہ بے نظیر بھٹو اور مِیر مرتضیٰ بھٹو کا قتل، شاہ نواز بھٹو کی پُراسرار موت اور انتقال سے پہلے بیگم نُصرت بھٹو کا مسلسل ”کوما“ میں رہنا کیا ایک المیہ نہیں ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مفلوک اُلحال لوگوں کی بددُعاﺅں نے بھٹو خاندان کو عبرت کا نشان بنا دِیا ہو؟
چیئرمین ماﺅزے تُنگ نے جب انتقال کِیا تو ترکے میں 6 جوڑے کپڑے (Uniforms)، بنک میں چند ڈالرز اور ایک لائبریری چھوڑی تھی۔ مصّورِ پاکستان علّامہ اقبال جب وکالت کرتے تھے تو انہوں نے اپنی ضرورت کے مطابق ہی مقدمات کی پیروی کی۔ اضافی مقدمات کی فیس وہ اپنے دوستوں اور شاگردوں میں بانٹ دِیا کرتے تھے۔ قائدِاعظم نے اپنی زندگی میں اپنی ساری جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر قوم کے نام کر دِیا تھا۔ اِس وقت مسلم لیگ کے مرکزی صدر کی حیثیت سے وزیرِاعظم نواز شریف قائدِاعظم کی کُرسی پر رونق افروز ہیں اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف (آل انڈیا مسلم لیگ کی پنجاب شاخ کے صدر ) علّامہ اقبال کی کُرسی پر علّامہ اقبال اور قائدِاعظم کا نصب اُلعین ”پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنانا تھا۔“
علّامہ اقبال اور قائدِاعظم کے اِس نصب اُلعین کی کون تکمیل کرے گا؟ مسلم لیگ (ن) کے قائدین یا کوئی اور؟ میاں نواز شریف خُوش قِسمت ہیں کہ جلا وطنی کے بعد اُنہیں تیسری بار وزیرِاعظم بننے کا موقع مِلا ہے۔ بڑا صوبہ پنجاب اُن کا "Power Base" ہے۔ میاں شہباز شریف کی اعلیٰ کارکردگی کے باعث مسلم لیگ (ن) کو 11 مئی 2013ءکے عام انتخابات میں بھاری مینڈیٹ مِلا ہے۔ اِس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو نہ جانے کیا ہو؟ غُربت کی لکِیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 50 فیصد مفلوک اُلحال لوگوں کی تقدیر بدلنے کے لئے مسلم لیگ (ن) میں ”ثقافتی انقلاب“ لانا ہو گا۔ یہ انقلاب کیسے لایا جائے؟ یہ سوچنا وزیرِاعظم نواز شریف کا کام ہے۔ میرا یا کسی اور کا نہیں۔

ای پیپر-دی نیشن