اپوزیشن جماعتیں حکومت پر سیاسی دبائو بڑھانے میں کامیاب ر ہیں: بی بی سی
لاہور (نیٹ نیوز) عید کی چھٹیاں ختم ہوتے ہی سیاستدانوں کے ایک دوسرے پر الزامات، دھمکیوں اور جوابی دھمکیوں نے سیاسی درجہ حرارت میں خوب اضافہ کر دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں احتجاج کو لیکر گرما گرم ماحول بنانے اور ابتدا میں لاپروا نظر آنے والی حکومت پر بظاہر سیاسی دبائو بڑھانے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ سوال یہ ہے جب اس حکومت سے پہلے منتخب ہونے والی حکومت جیسے تیسے اپنی مدت پوری کر چکی ہیں تو پھر آخر ایسے کیا اسباب پیدا ہوئے کہ ایک سال میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اس صورتحال سے دوچار ہوئی جس سے عموعاً سیاسی جماعتیں اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں ہوتی ہیں۔ سیاسیات کی پروفیسر ڈاکٹر عنبرین جاوید کہتی ہیں کہ ہمارے ملک میں ابھی جمہوریت ابتدائی مراحل میں ہے اسے مستحکم ہونے کے لیے وقت درکار ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں بے صبری سی ہے۔ وہ کئی تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت نے معاملات کو پرامن طریقے سے سلجھانے کے کئی مواقع ضائع کیے ہیں اور اب مذاکرات کے سگنل دینا بے سود ہوگا۔ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں یہ نواز حکومت کو سوچنا چاہیے کہ دو تہائی اکثریت کے باوجود اتنی ناراضگی کیسے بڑھی کہ ایک ہی سال میں اپوزیشن اس طرح سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ نواز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ دوسرا انکی حکومت کی ترجیحات درست نہیں۔پاکستان کے عوام کو بجلی چاہیے، وہ مہنگائی اور امن عامہ کے مسائل کا حل مانگتے ہیں لیکن حکومت کی توجہ بڑی سڑکیں اور پل بنانے اور لیپ ٹاپ تقسیم کرنے پر ہے۔ اپنی ترجیحات درست نہ ہونے کے باعث بھی مسلم لیگ (ن) مشکل کا شکار ہو جاتی ہے۔ تاہم سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے کئی ماہرین کا خیال ہے کہ سیاست میں کچھ بھی حتمی نہیں کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے اور حکومت کو تحریک انصاف کے ساتھ درپردہ رابطے کر کے ان کے شکایات دور کرنے کی یقین دہانی کروانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے اس سے معاملات سلجھ سکتے ہیں۔
بی بی سی