اپوزیشن تحریک انصاف کے تحفظات دور کرنے کیلئے کردار ادا کرے: نثار
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) وزیر داخلہ چودھری نثار نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران تحریک انصاف کے تحفظات دور کرنے کے لئے اپوزیشن سے کردار ادا کرنے کی اپیل کی جبکہ وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں آرٹیکل 245 کے نفاذ کا کسی سیاسی سرگرمی اور دھرنے سے تعلق نہیں ہے اور نہ ہی یہاں فوج بلانے کا کوئی سیاسی پس منظر ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے آرٹیکل 245 کے نفاذ کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے اس فیصلہ کے پس منظر پر روشنی ڈالی، اپوزیشن کے اعتراضات کا مدلل جواب دینے کی کوشش کی اور بعض امور پر اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں بھی لیا لیکن اپنے خطاب کے آخر میں یہ کہتے ہوئے مفاہمت کی پیشکش بھی کر دی کہ اگر جماعت اسلامی، پی پی پی، محمود خان کی پختونخواہ ملی عوامی پارٹی جیسی غیر جانبدار جماعتیں اس سلسلہ میں مفاہمانہ کردار ادا کرنا چاہتی ہیں تو اس کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ 2007 سے اب تک چوبیس بار آرٹیکل دو سو پنتالیس کا نفاذ کیا جا چکا ہے۔ یہ آرٹیکل ان لوگوں نے بھی نافذ کیا جو آج اعتراض کرنے میں پیش پیش ہیں۔ یہ بتائیں کیا اس آرٹیکل کے نفاذ سے پہلے ایوان کو اعتماد میں لیا گیا؟ موجودہ حکومت نے فیصلہ کرنے سے پہلے فوج اور سیاسی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بار بار مشاورت کی۔ اس ضمن میں قانونی رائے بھی حاصل کی گئی تب فیصلہ کیا گیا۔ اسلام آباد میں فوج کی طلبی کسی اعتبار سے نئی بات نہیں۔ سات مقامات پر فوج کو محض حفاظتی نکتہ نظر سے بلایا گیا ہے تاکہ اسلام آباد میں دہشت گردی کے خطرات کا تدارک کیا جا سکے۔ راولپنڈی اور فیصل آباد کے ائرپورٹ پر فوج تعینات کر دی گئی ہے جلد ہی پشاور اور کراچی کے ائرپورٹ بھی فوج کے حوالے کر دئیے جائیں گے۔ یہ قومی فوج ہے ۔کسی ایک جماعت کی فوج نہیں اس کے باوجود ماضی میں اس قومی ادارے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا۔ وفاقی دارالحکومت کو فوج کے حوالے نہیں کیا گیا۔ یہاں کس جگہ فوج دکھائی دے رہی ہے۔ جب حالات میں شدت آ جائے تو نظریں فوج کی طرف ہی اٹھتی ہیں۔ کراچی میں بھی فوج بلانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ جب کراچی ائر پورٹ پر حملہ ہوا تو کس قانون کے تحت فوج وہاں موجود تھی۔ گزشتہ محرم میں جب حالات کشیدہ تھے تو چاروں صوبوں نے فوج کی ریکوزیشن کیلئے خط لکھا۔ تمام صوبوں میں آرٹیکل دو سو پنتالیس کا نفاذ ہوا۔انہوں نے امریکہ، برطانیہ، لاطینی امریکہ سمیت متعدد ملکوں کا حوالہ دیا جہاں ضرورت پڑنے پر فوج کی مدد حاصل کی جاتی ہے۔ آرٹیکل کا نفاذ صرف دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے کیا ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اختیار سماعت اور حدود کو معطل نہیں کیا۔ جب کوئی ملک حالت جنگ میں ہوتا ہے تو مخالفین بھی حکومت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ویسے بھی چودہ اگست قوم کو تقسیم کرنے نہیں بلکہ متحدکرنے کا وقت ہے۔تنقید کرنا اور حکومت کی سمت درست کرنا اپوزیشن کا حق ہے لیکن یاد رکھیں ہم سب جمہوریت کے علمبردار اور محب وطن ہیں۔ 14 اگست کو اس سے پہلے یا بعد میں فوج کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کرینگے۔ منگل کو ایوان میں نجی کارروائی کا دن تھا لیکن قواعد معطل کر کے آرٹیکل 245 کے نفاذ پر بحث کی گئی۔ بحث کیلئے وفاقی وزیر زاہد حامد نے قرارداد پیش کی۔ قائد حزب اختلاف خورشید احمد شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 245 نافذ کر کے حکومت نے اپنی ناکامی تسلیم کر لی ہے اسے واپس نہ لیا گیا تو احتجاج کریں گے۔ آرٹیکل 245 کا نفاذ منی مارشل لاء ہے جس سے بنیادی انسانی حقوق معطل ہو جائینگے۔ بتایا جائے کہ اسلام آباد کو کیا خطرات ہیں۔ آرٹیکل 245 کے نفاذ سے حکومتی کمزوری ظاہر ہو رہی ہے۔ خورشید نے کہا کیا لانگ مارچ کو روکنے کے لئے فوج کو بلایا گیا؟ کیا حکومت چھوٹے سے شہر کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ پیپلزپارٹی نے جمہوریت کی خاطر اپنے دو وزیراعظم قربان کئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تسلیم کیا تھا کہ لاہور میں آرٹیکل 245 کا نفاذ غلطی تھی۔ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا چاہئے۔ آرٹیکل 245 کا نفاذ کر کے حکومت نے اپنی ناکامی تسلیم کر لی ہے۔ حکم واپس نہ لیا گیا تو پیپلز پارٹی احتجاج میں سب کو پیچھے چھوڑ دیگی۔ اداروں کی آڑ میں سیاست نہیں کرنے دی جائیگی۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کو اسلام آباد آنے دیا جائے۔ کارکن دو، چار دن یا زیادہ سے زیادہ 6 دن بیٹھیں گے ہم جمہوریت کو سپورٹ کرتے ہیں کسی حکومت کو بچانے کی کوشش نہیں کرینگے۔ شیخ رشید احمد نے کہا کہ جب سے پاکستان بنا ہے ہر جماعت جمہوریت کی بات کرتی ہے مگر آج تک ملک میں جمہوری استحکام نہیں آ سکا۔ سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی تحریک چلتی ہے اس کا نقصان ہمیشہ حکومت کو ہوا۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ پی ٹی آئی پرامن احتجاج کرنا چاہتی ہے مگر حکومت نے ہمارے لئے آرٹیکل 245 کا اطلاق کیا۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی، حکومت بتائے کہ فوج کو کس لئے طلب کیا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف آئین اور جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتی۔ انتخابات کا مطالبہ ہمارا جمہوری حق ہے۔ آرٹیکل 245 کا اطلاق کرنا ہے تو اس کا اطلاق 15 اگست کے بعد کیا جائے۔ اسلام آباد ہمارا شہر ہے اس شہر اور جمہوریت کی سکیورٹی ہماری ذمہ داری ہو گی۔ ایم کیو ایم کے رکن رشید گوڈیل نے کہا کہ عوام کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر آرٹیکل 245 لگانا تھا تو جب رمضان میں ایک روز کیلئے اجلاس بلایا تھا اس روز اس کی منظوری پارلیمنٹ سے لی جاتی۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے اور نام نہاد جمہوریت کے چیمپئن منتخب حکومت پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ عمران خان اگر 15 ماہ صبر کر سکتے تھے تو تین ماہ مزید صبر کریں آمریت کا دودھ پینے والوں کو آج کل دودھ نہیں ملتا اور وہ اس کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ تحریک انصاف لانگ مارچ ملتوی کر دے تو اچھا ہے کرنا چاہتی ہے تو اسے روکیں گے نہیں۔ ہمارے نکتہ نظر میں اختلاف ہے تاہم دشمنی نہیں۔ ایک جماعت طالبان سے مذاکرات کی بڑی حامی ہے تاہم حکومت سے مذاکرات سے انکاری ہے۔ ہم بار بار استدعا کرتے ہیں کہ آئیں مل بیٹھیں اس مسئلہ کا حل کریں۔ اگر حکومت اور تحریک انصاف کا جھگڑا ہوا تو صرف حکومت نہیں بلکہ سارے گھر جائیں گے۔ ایک طرف ضرب عضب ہے اور دوسری طرف اسلام آباد پر چڑھائی ہے۔ اگر حکومت گئی تو سب کچھ جائے گا اور آپ کے وزیراعظم بننے کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ محمود خان اچکزئی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہر رکن آئین پاکستان کے تحفظ کا حلف اٹھاتا ہے۔ آئین کے 280 آرٹیکل ہیں ان میں سے کسی کو چھیڑا گیا تو یہ دوبارہ نہیں بن سکے گا۔ ہم سب کو تحفظات ہیں تاہم اس کو مانتے ہیں۔ اس کے تحفظ کا حلف ہم اٹھاتے ہیں۔ اس آئین کو چھیڑنے والے ہر آدمی کیخلاف بغاوت جائز ہے۔ خواہ وہ عمران خان ہو یا کینیڈین ملا ہو یا یہ میں ہوں۔ میں سب کو دعوت دیتا ہوں کہ جو بھی اس آئین کو چھیڑے اس کیخلاف بغاوت کیلئے اٹھ کھڑے ہوں ہم 20 کروڑ عوام کے ساتھ مذاق نہیں کرنے دینگے۔ اس پارلیمنٹ کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ جلسے، جلوس صرف اسلام آباد میں ہی نہ ہوں اس کیلئے پورا ملک کھلا ہے۔ جلسے جلوس سب کا حق ہے۔ آرٹیکل 245 کا نفاذ ایک غلطی ہے یہ واپس بھی لیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ پارلیمنٹ اور چاروں اسمبلیوں سے متفقہ قرارداد پاس کرنا ہوگی کہ آئین، جمہوریت اور 20 کروڑ عوام کی رائے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے، یہ قرارداد آنی چاہئے۔ یہ تماشا اب نہیں چلے گا۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ ملک خطرناک حالت میں ہے اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو ہمارے ساتھ قذافی، صدام حسین والا کھیل کھیلا جا سکتا ہے۔ آئین کو چھیڑا گیا تو فیڈریشن کا قائم رہنا مشکل ہو گا۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر کسی کو جلسے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ حکومت کے پاس واضح اکثریت ہے۔ آرٹیکل 245 کا نفاذ کمزوری ہے۔ آفتاب شیر پائو نے کہاکہ وہ پی ٹی آئی کے اس موقف کے حق میں نہیں ہیں کہ چار حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے تو پورے ملک میں الیکشن کرا دیئے جائیں تاہم اسلام آباد میں کوئی ایسی آفت نہیں آئی کہ 245 کا اطلاق کر دیا جائے۔ دہشت گردی کے خطرات اسلام آباد سے زیادہ کراچی اورپشاور کو ہیں۔ پاکستان اس لئے نہیں بنایا تھا کہ 14 اگست کو دھرنے دیں اور ماحول خراب کریں۔ اعجاز الحق نے کہا کہ آرٹیکل 245 کو جو رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ کوئی بہت بڑا خطرہ لاحق ہے۔ میں نے وزیراعظم سے ملاقات میں تجویز دی تھی کہ اس موقع پر قومی یکجہتی کیلئے کانفرنس طلب کی جانی چاہئے۔ لانگ مارچ کے پیچھے اگر کسی کا واقعی کوئی ہاتھ ہے تو بڑی افسوسناک بات ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اگریہ ایوان فیصلہ کرے کہ آرٹیکل 245 کا نفاذ نہیں ہونا چاہیے تو ہم اس فیصلے کو تسلیم کرنے کیلئے تیارہیں، اس شق کے نفاذ کی ٹائمنگ پر اعتراض ہو سکتا ہے لیکن اس کے نفاذ سے دہشت گردوں کے خلاف مصروف افواج کو آئینی چھتری فراہم کی گئی ہے۔ پی ٹی آئی صوبائی حکومت اور اس ایوان کا حصہ ہے اسے مسائل کے حل کے لئے ایوان کے فورم کا استعمال کرنا چاہئے۔ میں بڑی ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ آرٹیکل 245 کا سیاسی صورتحال سے کوئی تعلق نہیں، ایوان اس کے خلاف کوئی فیصلہ کرے تو ہم اسے قبول کریں گے۔