نوائے وقت سے مجید نظامی کی آخری رخصتی اور سلامِ آخر
بعض اتفاقات ایسے ہوتے ہیں جو انسان کو ساری زندگی حیران کرتے رہتے ہیں۔رمضان شریف کے ابتدائی ہفتے کے دوران میں حسب معمول پیر کے دن بعد دوپہر چار بجے کے لگ بھگ اپنا تحریر کردہ کالم ادارتی عملے کے حوالے کرنے کیلئے نوائے وقت کے دفتر پہنچا۔ کارسڑک کے کنارے کھڑی کی اور طویل موٹر سائیکل سٹینڈ کے درمیان سے گزرتا ہوا جب نوائے وقت کے استقبالیہ دروازے سے کچھ فاصلے پر تھا تو دیکھا کہ مجید نظامی صاحب آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے اپنی کار کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ انکے ہمدم دیرینہ اور ’’خادم اعلیٰ‘‘ منیر صاحب بھی آہستہ خرامی میں ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ انکے دور گاڑی کے درمیان پانچ چھ قدم کا فاصلہ تھا۔ میں نے اپنے قدموں کی رفتار تیز کر دی۔ ارادہ تھا کہ کار میں سوار ہونے سے قبل نظامی صاحب کی خدمت میں سلام عرض کر دوں اور مصافحہ کر لوں لیکن ابھی میں کار سے چند قدم کے فاصلہ پر تھا کہ منیر صاحب نے کار کا عقبی دروازہ کھولا اور نظامی صاحب کو سہارا دے کر کار کی نشست پر بٹھا دیا۔ مجید نظامی صاحب کی مجھ پر نظر پڑی تو میں نے وہیں سے ہاتھ اٹھا کر انہیں سلام پیش کیا۔ میری تیز رفتار قدم کاری دیکھ کر انکے چہرے پر مسکراہٹ کا تاثر نمودار ہوا اور انہوں نے سر کی ہلکی سی جنبش سے میرے سلام کا جواب دیا۔ اسکے ساتھ ہی منیر صاحب نے کار کا دروازہ بند کر دیا اور کار چوکیداروں کے درمیان سے گزرتی ہوئی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ اسکے چند دن بعد پتہ چلا کہ نظامی صاحب کی طبعیت نا ساز ہے۔ اور وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ 24جولائی کو میں عدالت سے گھر آیا ۔ ابھی میں نے کالا کوٹ نہیں اتارا تھا کہ میری بیگم نے بتایاکہ ایکسپریس نیوز چینل پر نظامی صاحب کے بارے میں خبر چل رہی تھی کہ وہ شدید علیل ہیں اور ان کے اہل خانہ کو ڈاکٹروں نے ہسپتال بلالیا ہے۔ 27رمضان کی رات ہم سب گھر والوں نے جاگتے ہوئے گزاری، میری دعائوں میں نظامی صاحب کی صحت یابی کی دعا بھی شامل تھی، سحری کھانے اور نماز فجر کے بعد نیند کے غلبہ پایا اور میں سو گیا۔ صبح گیراج سے اخبار اٹھانے گیا تو دل دھک سے رہ گیا۔ مجید نظامی صاحب کے انتقال کی خبر بڑی سرخی کے طور پر چھپی ہوئی تھی بے اختیار دل سے نکلا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
یہ دل گداز خبر پڑھتے ہی آنکھیں بھیگنے لگیں۔ پھر آنکھوں کی نمی میں 1996ء کا وہ منظر لرزنے لگا جب میں بیرون ملک سے آئے ہوئے ایک دوست کے ہمراہ’’شامل واجے‘‘ کی حیثیت میں نظامی صاحب سے ملاقات کیلئے گیا تھا۔ میرے دوست کو شاہ دین بلڈنگ کا علم نہیں تھا اسلئے اس نے رہنمائی کیلئے مجھے ساتھ لے لیا۔ نظامی صاحب دفتر میں موجود تھے دفتر کے باہر سٹول پر منیر صاحب رنگین شیشوں والی عینک لگائے بیٹھے تھے۔ میرے دوست نے کارڈ اندر بھجوایا۔ تھوڑی دیر بعد ہمیں اندر طلب کر لیا گیا۔ نظامی صاحب جس محبت سے میرے دوست سے ملے اسی محبت سے میرا حال احوال بھی پوچھا، مجھے یہ سوچ کہ حیرت ہوئی کہ میری نظامی صاحب سے کبھی براہ راست ملاقات نہیں ہوئی پھر ان کی آنکھوں میں شفقت بھری اپنائیت کیسی ہے، تھوڑی دیر تک لندن پلٹ دوست سے گفتگو کے بعد وہ پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور میری حیرت کو تحلیل کرتے ہوئے بولے… روز نامہ مشرق کے بعد آج کل کہیں کالم لکھ رہے ہو یا نہیں؟ میں نے عرض کیا وکالت میں مصروفیت کے سبب کالم لکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ ویسے بھی اخبار مشرق سرکاری کنٹرول کی وجہ سے روبہ زوال ہے۔ ان دنوں ملک میں قومی انتخابات کا ہنگامہ بپا تھا، میں نے انتخابی مضحکہ خیزیوں پر چھ سات طنزیہ مزاحیہ قطعات لکھ رکھے تھے۔ جو تھوڑی دیر قبل اپنے لندن پلٹ دوست کو سنا چکا تھا۔ میرے دوست نے نظامی صاحب کو بتایا کہ آجکل یہ کالم تو نہیں لکھ رہے لیکن الیکشن کے حوالے سے انہوں نے کچھ قطعات لکھے ہیں جو سنے جا سکتے ہیں۔ نظامی صاحب کے حکم پر میں نے قطعات سنائے نظامی صاحب نے قطعات والا کاغذ میرے ہاتھ سے لیا، ایک نظر اس پر ڈالی اور ایک طرف رکھ دیا۔ اگلے دن نوائے وقت دیکھا تو ایک قطعہ شامل اشاعت تھا۔ میں نے سوچا، شکر ہے ایک قطعہ تو نظامی صاحب کو پسند آیا۔ اس سے اگلے دن کا اخبار آیا تو دوسرا قطعہ دوسرے صفحہ کی زینت تھا۔ ایک ہفتہ لگاتار ایک ایک قطعہ شائع ہوتا رہا۔ ساتویں دن فون کی گھنٹی بجی، دوسری طرف ایڈیٹوریل سٹاف کے رکن طلعت(اب مرحوم) بول رہے تھے۔ انہوں نے مزید قطعات کا مطالبہ کرتے ہوئے تبایا کہ نظامی صاحب کی ہدایت ہے کہ آپ کا ایک قطعہ ہر روز شائع ہوا کریگا۔ وہ دن اور آج کا دن اٹھارہ سال سے میرے قطعات بلا ناغہ نوائے وقت میں شائع ہو رہے ہیں۔ دو سال قبل نظامی صاحب کی ہدایت پر کالم نگاری دوبارہ شروع کی۔ بات کہیں سے کہیں نکلی جا رہی ہے۔ میں اس حسن اتفاق کی بات کر رہا تھا جو عمر بھر میری یادوں کا سرمایہ رہے گا۔مجید نظامی کی رسم قل کی پرہجوم تقریب میں مرحوم کے دیرینہ ساتھی شاہد رشید نے آنسوئوں میں بھیگی ہوئی جذبات بھری گفتگو کی۔ دعائے مغفرت کے بعد دل گرفتہ احباب کی رخصتی شروع ہوئی تو میری ملاقات منیر صاحب سے ہو گئی میں نے انہیں وہ دن یاد کروایا جب وہ نظامی صاحب کو کار میں سہارا دیکر بٹھا رہے تھے۔ منیر صاحب بولے بس بس وہی پیر کا دن نظامی صاحب کا نوائے وقت میں آخری دن تھا۔ اسی شام انکی طبعیت زیادہ خراب ہوئی اور پھر وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اس انکشاف پر مجھے وہ حیران کن اتفاق یاد آ گیا جس کا ذکر میں نے کالم کے آغاز میں کیا ہے۔ مجھے قدرت نے یہ اعزاز بخشا ہے کہ ادارہ نوائے وقت سے مجید نظامی کی آخری رخصتی کا منظر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ دوسرا عزاز یہ ہے کہ ادارہ نوائے وقت سے آخری رخصتی کے آخری لمحے میں انہیں سلام آخر پیش کرنے والا آخری شخص بھی میں تھا …ع
کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ