عمران خان کا لانگ مارچ اور طاہر القادری کا انقلاب مارچ
حکمران اتنے بوکھلائے ہوئے ہیں کہ عمران خان کا مبینہ ملین مارچ روکنے کیلئے طرح طرح کے حربے آزما رہے ہیں۔ عمران خان اپنا سونامی لیکر اسلام آباد چڑھائی کرنے والے ہیں۔ چنانچہ پہلے تو یوم آزادی کی تقریبات کو ایک دن کے بجائے پھیلا کر ایک ماہ تک کر دیا گیا کہ عمران خان کو دھرنا دینے کی جگہ ہی نہ ملے اور اب اسلام آباد کو تین ماہ کیلئے فوج کے حوالے کردیا گیا ہے۔ کہا تو یہ گیا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کو ممکنہ رد عمل روکنے کیلئے ایسا کیا گیا ہے اورآئین کی شق 245کے تحت فوج کو طلب کیا گیا ہے۔ اسلام آباد کو فوج کے حوالے کرنے کا مقصد عمران خان کا خوف ہی معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت تحریک انصاف کو فوج سے لڑانا چاہتی ہے۔ عمران خان بھی بضد ہیں کہ 14اگست کو یوم آزادی اسلام آباد کے ڈی چوک پر منا کر رہیں گے۔ اب بات ضد پر آگئی ہے خدشہ یہ ہے کہ اس ضد‘ بحث میں کوئی بڑا نقصان نہ ہو جائے مگر فریقین یہ بات سمجھنے پر تیار ہی نہیں ہیں اور طاقت کا مظاہرہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد میں داخلے کے بڑے راستے بند کرنے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کہتے ہیں کہ عمران خان کے آزادی مارچ کیلئے حکومت کو کوئی درخواست ہی نہیں ملی۔ سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان جلوس نکالنے پر تل ہی گئے ہیں تو انہیں یہ شوق پورا کرنے دیا جائے۔ حکومت مضبوط ہو تو وہ جلسے‘ جلوسوں اور انقلاب کے دعویداروں سے خوف زدہ نہیں ہوتی اور نہ ہی حکمران یہ اپیل کرتاہے کہ ہماری ٹانگیں نہ کھینچو‘ ہمیں حکومت کرنے دو۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی عام انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے سونامی مہم کا حتمی نتیجہ برآمد ہونیکا وقت نزدیک آرہا ہے۔ ایک تو اس لیے کہ وہ خود بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ 14اگست کو ’’نیا پاکستان‘‘ قائم ہوگا۔ دوسرے اس لیے بھی کہ 14 اگست کے آتے آتے‘ مسلم لیگ ن کے سرکاری کیمپ میں بھی کھلبلی کے آثار نمایاں ہیں۔ اور اگر مسلم لیگ ن ڈانواں ڈول ہوتی ہے اس کے اثرات پیپلز پارٹی پر بھی رد عمل کے طور پر مرتب ہوں گے۔ لہٰذا ایک سال سے تقریباً خاموش پیپلز پارٹی میں بھی ہلچل دکھائی دینے لگی ہے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری عام اطلاعات کے مطابق بچوں سمیت عید کی چھٹیاں گزارنے دوبئی گئے تھے جہاں ان کی ’’کسی‘‘ سے ایک ملاقات ہوئی اس کے بعد وہ واشنگٹن چلے گئے جہاں انہیں سابق صدر کی حیثیت سے سرکاری پروٹوکول دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی شہلا رضا نے آصف علی زرداری کے دورے کی حیرت انگیز تشریح کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عمران خان کی سونامی مہم کو روکنے کیلئے امریکہ کو راضی کرنے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے عمران خان کا دل جیتنے والا ایک بیان جاری کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر نواز حکومت نے عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو پیپلز پارٹی عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ شہلا رضا اور خورشید شاہ کے تحریک عمران کے بارے میں متضاد بیانات چغلی کھاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی تحریک انصاف سے کسی نہ کسی حد تک تعاون پر آمادہ ہے تاہم وہ جسے پنجابی بھاؤ تول کہتے ہیں اس کے مرحلے میں ہے۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ عمران خان اور ن لیگ میں مصالحت کی کوشش ہو رہی ہے۔ ’’اسٹیبلشمنٹ ‘‘ کے ایک سینئر رکن یہ کوشش کر رہے ہیں کہ عمران خان اپنا 14 اگست کا جلسہ ملتوی کردیں یا اس کا مقام تبدیل کردیں۔ لیکن اس کے عوض مسلم لیگ ن والے تحریک انصاف کے کون سے مطالبات تسلیم کرسکیں گے۔ 14 اگست آنے میں چھ سات دن باقی ہیں اس وقت تک دیکھتے ہیں۔ اسی کے پاس منظر میں دیکھا جائے گا کہ عمران خان اور لیگی لیڈروں کے درمیان بیک ڈور ڈپلومیسی کا اکاؤنٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ طاہرالقادری نے سانحہ منہاج القرآن کے شہداء کی قربانیوں کو سلام پیش کرنے کیلئے 4سے 9 اگست تک ’’ہفتہ شہدا‘‘ اور 10 اگست کو ’’یوم شہدا‘‘ منانے کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ماہ اگست کے آخر تک حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
وطن عزیز کے سیاسی منظرنامے پر چودہ اگست کو عمران خان کے لانگ مارچ ’’ڈاکٹر طاہر القادری کے انقلاب‘‘ وفاقی دارالحکومت میں آرٹیکل 245کے نفاذ اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے خدشات کے رنگ بہت گہرے دکھائی دے رہے ہیں۔ دونوں اطراف سے سخت و نرم بیانات کا سلسلہ جاری ہے لیکن درپردہ مفاہمت اور تعاون کے تقاضوں پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ چوہدری نثار علی خان نے عمران خان سے مذاکرات کے چار نکاتی ایجنڈا پیش کیا ہے جن میں چار حلقوں کی کمپیوٹرائزڈ تصدیق‘ الیکشن کمیشن کی ازسرنو تشکیل‘ کے پی کے میں آئی ڈی پیز کی بحالی کیلئے اربوں روپے کی فراہمی اور پنجاب میں پی ٹی آئی کے خلاف انتقائی کارروائی نہ کرنے کے نکات شامل ہیں تاہم نئے انتخابات کے مطالبے کو رد کر دیا گیا ہے۔ عمران خان کو مارچ سے قبل ایک مرتبہ ضرور مذاکرات کی ٹیبل پر آنا چاہیئے اگر ان کے مطالبات تسلیم کر لیے جاتے ہیں تو انہیں آزادی مارچ موخر کردینا چاہیئے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تحریک انصاف اور عوامی تحریک ایسا کوئی قدم نہ اٹھائیں جس سے سیاسی نظام کو کوئی خطرہ ہو یا جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائے۔ قارئین کرام ! جنرل ریٹائرڈفیض علی چشتی نے راقم کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا بھٹو کے دور میں جب قومی اتحاد کی تحریک چل رہی تھی تو بھٹو نے یہ تحریک بند کرنے کیلئے لاہور‘ حیدرآباد اور کراچی میں فوج کو تعینات کیا تھا اور اس بنا پر فوج کو پورے ملک میں مارشل لاء لگانے کا موقع مل گیا اور ایسا آئندہ بھی ہوسکتا ہے۔