سچی اور کھری صحافت کے علمبردار
ملت کا مجاہد،سچی اور کھری صحافت کے علمبردار اسلامی فلاحی ریاست کے خواہاں ڈاکٹرمجید نظامی ہم سے جداہوگئے ہیں،موت اگرچہ برحق ہے اور نظامی صاحب نبوی زندگی سے بھی بونس زندگی گزار چکے تھے ،لیکن انکی موت کی خبر نے شدیدترین غمگین کردیاان کی جدائی کی اطلاع )مبارک مہینے رمضان المبارک کی اس رات کو ہوئی جسے لیلتہ القدر کہاجاتاہے جس رات کی عبادت ہزار مہینوں کی راتوں سے افضل ہے،( 27رمضان المبارک 1435،26جولائی 2014صبح نماز فجر میں ملی،صبح 9 بجے باغ جناح لاہور میں جنازے کا اعلان کیاگیا، بند ہ ناچیزاس عظیم انسان کی نماز جنازہ کی ادائیگی اور اسے خدائے وحدہ لاشریک کے سپردکرنے کیلئے وقت مقرر سے پہلے ہی باغ جناح لاہور میں اپنے برادرکبیرمحمدطاہرمخدوم اور برادر صغیرمحمداظہر مخدوم کے ہمراہ پہنچ گیا،تمام شعبہ ہاے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ جوق در جوق پہنچ رہے تھے،کچھ ہی دیر کے بعد مرحوم نظامی صاحب کا جسد خاکی تابوت میں لایا گیا، اتفاقاجہاں میں کھڑاتھا وہی آکر ایمبولینس رکی، جس کی وجہ سے مجھے بھی کندھادینے کا موقع مل گیا، محترم نظامی صاحب سے کئی بار ملاقات کا موقع ملاقائد جمعیت مولانا سمیع الحق صاحب کیساتھ متعدد بار ملاقات میں شریک رہا، دیگر تحریکوں میں علماء کرام مشائخ عظام اور سیاسی زعماء کے ساتھ اکثر بیشتر ملاقاتیں رہی ہیں ، کئی مرتبہ اکیلا بھی محترم نظامی صاحب کی خدمت میں حاضرہوا ہر بار خصوصی شفقت فرماتے پیار دیتے اور کبھی کبھی جامع مگر مختصر نصیحت بھی فرماتے اگر کبھی ملاقات نہ ہو سکتی ہوتی تواپنے سیکرٹری کے ذریعے سے وجوہات سے آگاہ فرماتے ،چھوٹے لوگوں کی عزت اور حوصلہ افزائی ان کے بڑے پن کی دلیل تھی،ایک مرتبہ ڈنمارک اور ناروے کی طرف سے گستاخانہ خاکے شائع ہوئے تو اسکی مذمت میں حمید نظامی ہال مین تحفظ ناموس رسالت سیمینار کا انعقاد ہوا،ملک کے جید علماء کرام مشائخ عظام کے ساتھ میرا نام بھی مقررین میں تھا اور سب سے پہلے خواجہ فرخ سعید صاحب نے مجھے ہی خطاب کی دعوت دی ، محترم نظامی صاحب نے تمام مقررین کا شکریہ ادا کیاتو ساتھ ہی فرمایااس تقریب کے ننھے منے مقرر جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات محمدعاصم مخدوم بھی ہیں ،وہ اتنے پیار اور شفقت سے نام لے رہے تھے گویاوہ اپنا گرویدہ بنارہے تھے، اتنا بڑاانسان جس کی تابعداری اور جی حضوری کیلئے ملک کے بڑے بڑے سیاست دان اور نامور لوگ ہمہ وقت تیاررہتے تھے،جن کی ایک چھٹی پر لوگ وفاقی وزیربن جاتے تھے اور جن کے کہنے پر لوگ صدر مملکت کا منصب سنبھال لیتے تھے،میری آخری ون ٹوون ملاقات نوائے وقت کی پرانی بلڈنگ میں اس وقت ہوئے جب میں قائد جمعیت مولانا سمیع الحق صاحب کی 7جلدوں پر مشتمل مشاہیرکے خطوط کی تقریب رونمائی میں شرکت کی دعوت دینے کے لئے گیااس دن محترم نظامی صاحب نے معمول کے خلاف ملاقات کا وقت دیا،اس موقع پر ملکی حالات کے ساتھ ساتھ کچھ نجی باتیں بھی کی اور مولانا سمیع الحق صاحب کے نام ایک پیغام بھی دیا۔
محترم نظامی صاحب نے آخر دم تک نظریاتی صحافت کا علم بلند رکھا ‘ مرحوم نے پاکیزہ مثبت تعمیری صحافت کے ذریعہ ملک و ملت کی رہنمائی کی اور ثابت کیا کہ مروجہ زرد صحافت سے ہٹ کر بھی میڈیا کے میدانوں میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی جیسا سچااور کھرا صحافی صدیوں بعد ہی پیداہوگا،ان کے انتقال سے دنیا صحافت میں ایک بڑاخلاپیداہوگیاہے ،ڈاکٹر مجید نظامی سچی اور اصولی صحافت کے علمبردار تھے اس میدان میں دنیا ان کا ثانی ڈھونڈنے میں ناکام رہے گی ، زمانے گزر جائیں گے لیکن ان کی نظیرنہیں لائی جا سکے گی ۔