غداری کیس: ایف آئی اے ریکارڈ میں تبدیلی کا خدشہ ہے‘ عدالت قبضے میں لے: وکلاء مشرف
اسلام آباد(ثناء نیوز + نوائے وقت رپورٹ) مشرف کے خلاف غداری کیس میں خصوصی عدالت میں آج 3 نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان پر مشتمل اصل ڈی وی ڈی دکھائی جائیگی۔ کمرہ عدالت میں پروجیکٹر کی تنصیب کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ خصوصی عدالت نے ساتویں گواہ ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر کا بیان ریکارڈ کر لیا ہے۔ پرویز مشرف کے وکلاء نے متفرق درخواست دائر کرتے ہوئے درخواست کی ہے کہ عدالت ایف آئی اے کا ریکارڈ اپنے قبضہ میں لے کیونکہ انہیں ریکارڈ میں تبدیلی کا خدشہ ہے۔ اس درخواست پر عدالت نے استغاثہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آج جواب جمع کرانے کی ہدایت کر دی ہے۔ عدالت نے واضح کیا ہے کہ ایمرجنسی نافذ کیے جانے کے سرکاری ٹی وی پر اعلان کی ڈی وی ڈی دیکھ کر اس اعلان کے سکرپٹ کی تصدق کی جائیگی۔ عدالت نے مشرف کے وکیل کی درخواست پر کہا کہ ضابطہ فوجداری کے رولز 72(2) کے تحت پولیس ریکارڈ اور ڈائریاں بطور شہادت طلب نہیں کی جا سکتیں جس پر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ وہ ایف آئی اے کا ریکارڈ بطور شہادت طلب کرنے کی درخواست نہیں کر ر ہے بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈائریاں بطور تائید کام آ سکتی ہیں۔ پراسیکیوشن نے عدالت کو بتایا ہے کہ ایف آ ئی اے اپنی تحقیقات کے دوران کوئی روزنامچہ تیار نہیں کرتا۔ ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر مقصود الحسن نے متعدد دستاویزات عدالت میں جمع کراتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ 27 اگست 2013ء کو وزیراعظم سیکرٹریٹ سے دستاویزات موصول ہوئیں اور 28 اگست 2013ء کو کابینہ ڈویژن کے سیکشن افسر عدنان منصور نے 3 نومبر کی ایمرجنسی کے بعد ہونے والے کابینہ اجلاس کے منٹس تحقیقاتی ٹیم کو فراہم کیے۔ ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر کی جانب سے دستاویزات جمع کرانے کے خلاف اعتراض اٹھاتے ہوئے مشرف کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ دستاویزات نئی ہیں۔ عدالت انہیں ریکارڈ کا حصہ نہ بنائے اور واپس کردے جس پر اکرم شیخ نے جواباً کہا کہ یہ دستاویزات تو پہلے سے ریکارڈ کا حصہ ہیں، گواہ مقصود الحسن کا کہنا تھا کہ مقدمہ کے حوالے سے تمام مواد اکٹھا ہونے کے بعد تحقیقاتی ٹیم اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس بنایا جائے اور انہوں نے اس ضمن میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ مرتب کر کے جمع کرائی جس پر تمام ممبران کے دستخط تھے صرف ایک ممبر اعظم خان تھے جو ریٹائر ہو چکے تھے اس لیے انہوں نے دستخط نہیں کیے۔ ڈائریکٹر جنرل نے خالد رسول، شہزاد ظفر اور خالد نعیم کو لکھا کہ وہ تحقیقاتی ٹیم کی معاونت کریں جس کے بعد تحقیقاتی ٹیم نے خالد رسول کو کابینہ ڈویژن سمیت دیگر اداروں سے دستاویزات وصول کرنے کا اختیار تفویض کیا۔