سراج الحق کی عمران سے ملنے کے بعد وزیراعظم سے ملاقات
لاہور/ اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے+ وقائع نگار خصوصی+ سپیشل رپورٹر+نوائے وقت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں) حکومت اور تحریک انصاف میں سیاسی درجہ حرارت کم کرانے کیلئے سیاسی رابطوں اور شٹل ڈپلومیسی کا سلسلہ جاری ہے، گذشتہ روز امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے عمران خان سے ملنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف سے اہم ملاقات کی اور انہیں تحریک انصاف کے چیئرمین کے ساتھ ہونے والی ملاقات سے متعلق آگاہ کیا۔ اس سے قبل سراج الحق سے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ اور محمود خان اچکزئی نے ملاقات کی۔ اسی طرح عمران خان اور طاہر القادری میں بھی ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ سابق صدر آصف زرداری نے بھی طاہر القادری سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے۔ خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ہماری صفیں درست ہوں تو دستانے پہنے ہاتھ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ملاقات کے بعد گفتگو میں خورشید شاہ نے کہا کہ وہ سسٹم کو بچانے کی کوششوں میں ملاقاتیں کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ آصف زرداری فکر مند ہیں کہ موجودہ حکومت پانچ سال پورے کرے اور دنیا میں پاکستان کا مذاق نہ بنے۔ جب سیاستدان مل جل کر فیصلے کرتے ہوں تو کوئی آگے نہیں آتا، بھرپور کوشش ہے کہ سسٹم جیسا بھی ہے چلتا رہے۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہاکہ خاموش تماشائی بننے کے بجائے حالات کو سدھارنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ عید قرباں سے پہلے قربانی نہ دی جائے، یہ شرعاً جائز نہیں۔ خورشید شاہ نے کہا کہ آئین اور قانون کی بالادستی پر سب متفق ہیں۔ دریں اثناء اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے اے این پی کے رہنما اسفندیار ولی سے بھی ملاقات کی۔ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد سراج الحق نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں کھچائو اور تنائو کی صورتحال ہے۔ عمران خان اور وزیراعظم کو تجاویز پیش کی ہیں۔ اپوزیشن کا کام مطالبہ اور احتجاج ہے اور مسائل کے حل کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ ملک میں کچھ ہو نہ جائے اس لئے مختلف تجاویز اور آپشنز پر کام کر رہے ہیں۔ 65 سال میں کچھ لوگوں نے جمہوریت کو یرغمال بنایا، چاہتے ہیں کہ 14 اگست اس طرح گزر جائے کہ بدمزگی نہ ہو۔ کسی بھی سانحہ سے بچنا چاہتے ہیں۔ ایسی انتخابی اصلاحات چاہتے ہیں تاکہ دھاندلی کے راستے بند ہو جائیں۔ کراچی اور فاٹا میں دھاندلی حیدر آباد میں ظلم اور الیکشن کمشن کی ناکامی پر ہمیں بھی تحفظات ہیں۔ دیکھنا ہو گا کہ وفاقی حکومت کس طرح مسائل حل کرتی ہے۔ جب کوئی مطالبہ ہوتا ہے تو درمیان میں کوئی حل نکل آتا ہے۔ تجاویز دیدی ہیں معاملات کیسے حل کرنے ہیں صلاحیت وفاقی حکومت میں ہے، جمہوریت کیخلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے۔ قبل ازیں سراج الحق نے عمران خان سے ملاقات کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ پاکستان ترقی کرے، تماشا نہ بنے۔ جماعت اسلامی الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف ہے۔ چاہتے ہیں آئندہ ایسے انتخابات ہوں کہ اس پر کوئی اعتراض نہ کرے۔ پاکستان میں حالات کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے۔ دھاندلی کے خلاف نظام بنانے کے حامی ہیں۔ عمران خان کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں، کچھ لوگ اپنے مفاد کیلئے چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ٹکرائو ہو۔ وزیراعظم کو حالات درست کرنے اور فیصلے کرنے ہیں۔ بحران کے حل کیلئے ہمارے پاس کچھ تجاویز ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ایسا کوئی راستہ نکلے کہ پاکستان میں کوئی اور سانحہ نہ ہو۔ 10 اگست کو اسلام آباد میں غزہ ملین مارچ کے بعد آزادی مارچ میں شرکت کے حوالے سے فیصلہ کرینگے۔ عمران خان نے 14 اگست کے آزادی مارچ میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ قبل ازیں وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ وہ تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں‘ یہ وقت انتشار کا نہیں اتحاد کا ہے‘ ہم دوسروں کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں انہیں بھی ہمارے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہئے‘ منفی سیاست سے ملک کو پہلے بھی بہت نقصان پہنچا، اب بھی نقصان کا خدشہ ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوری عمل آگے بڑھے‘ عمران خان سمیت سب کے تحفظات دور کرنے کو تیار ہیں۔ وہ مسلم لیگ (ضیائ) کے سربراہ اعجازالحق، حکومتی اتحادی جماعت جمعیت اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر سنیٹر ساجد میر اور قومی اسمبلی میں فاٹا کے پارلیمانی لیڈر جی جی جمال سے ملاقات میں بات چیت کررہے تھے۔ وزیراعظم سے ملاقاتوں میں تمام سیاسی رہنمائوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جمہوریت‘ آئین اور پارلیمنٹ کو ہر حال میں بالادست رہنا چاہئے۔ حکومت اور اپوزیشن مل کر اس نظام کو مضبوط بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرکے تمام معاملات کو اتفاق رائے سے طے کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ معمولی ایشوز کی بنیاد پر حکومت کے خاتمے اور مجھ سے استعفے کے مطالبے بلاجواز ہیں۔ اعجاز الحق نے آرٹیکل 245 کے حوالے سے اپنے تحفظات سے وزیراعظم کو آگاہ کیا۔ اس موقع پر اعجازالحق نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ ملک میں بڑھتے سیاسی درجہ حرارت کو ٹھنڈا کرنے کے لئے تمام سیاسی رہنماؤں سمیت عمران خان سے بھی ملاقات کریں۔ احتجاج سب کا حق مگر 14 اگست کی اہمیت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اس موقع پر اعجاز الحق نے کہا کہ وہ وزیراعظم کی طرف سے بات چیت کی پیشکش کے بارے میں عمران خان سے خود ملاقات کریں گے جس سے وہ وزیراعظم کو بھی آگاہ کرینگے۔ وزیراعظم کی ملاقاتوں میں وفاقی وزراء اسحاق ڈار، پرویز رشید اور احسن اقبال بھی موجود تھے۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہا کہ لانگ مارچ اور دھرنوں کی سیاست کرنے والے دہشتگردی کے خلاف جنگ اور ملکی ترقی کیلئے حکومت کا ساتھ دیں، حکومت پی ٹی آئی کے مظاہرین سے رویے میں آئین اور قانون کی پاسداری کریگی، حکومت کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں، پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو روکنے کیلئے کوئی اوچھے ہتھکنڈے اختیار نہیں کرینگے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت پی ٹی آئی کے مظاہرین سے رویئے میں آئین اور قانون کی پاسداری کرے گی۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر طاہر القادری اور ق لیگ کے صدر شجاعت حسین نے عمران خان کو الگ الگ فون کیا اور مارچ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ شجاعت کا کہنا ہے کہ حکمران گھر جانے کی تیاری کریں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بدھ کے روز طاہر القادری نے عمران خان کو فون کیا جس میں دونوں رہنمائوں کے درمیان آزادی اور انقلاب مارچ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا اس موقع پر طاہر القادری نے کہا کہ وہ آزادی مارچ سے اتفاق کرتے ہیں لیکن عمران خان کے ایجنڈے سے اتفاق نہیں انہوں نے کہا کہ حکمرانوں اور نظام سے نجات کیلئے تمام جماعتوں کا مشترکہ ایجنڈا ہونا چاہئے۔ سابق صدر آصف علی زرداری اور طاہر القادری نے بھی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ زرداری نے طاہر القادری سے کہاکہ سانحہ ماڈل ٹائون پر احتجاج آپ کا حق ہے، جمہوریت کسی صورت ڈی ریل نہیں ہونی چاہئے۔ زرداری نے کہا کہ سابق حکومت نے کسی سیاسی کارکن کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا، یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ ملک میں تنائو کی صورتحال ہے، جمہوریت کو بچانا ضروری ہے۔ طاہر القادری نے سابق صدر کو انقلاب مارچ سے متعلق آگاہ کیا اور کہاکہ ہم جمہوریت بچانے کیلئے ہی انقلاب لا رہے ہیں، احتجاج سے جمہوریت ڈی ریل نہیں ہو گی، سانحہ ماڈل ٹائون کے شہداء کے ورثاء کو ان کا حق دلانا چاہتے ہیں۔ ثناء نیوز کے مطابق سراج الحق نے کہا ہے کہ ملک میں کچھ لوگ ٹکرائو چاہتے ہیں تاکہ ان کے وارے نیارے ہو جائیں۔ وزیراعظم کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن پر تمام جمہوریت پسندوں کو اعتماد ہو۔ دریں اثناء خورشید شاہ نے اسفندیار سے ملاقات کے بعد کہا کہ عمران خان نے جو اعلان کیا ہے وہ واپس نہیں لیں گے، ثالثی تب ہی ہوتی ہے جب فریقین راضی ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ پھر اے آر ڈی اور ایم آر ڈی بنیں۔ انہوں نے کہا کہ معاملے کا کوئی نہ کوئی حل نکلنا چاہئے، حکومت ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں، تحریک انصاف بھی جارحانہ انداز میں آگے بڑھ رہی ہے، آج بھی عمران خان سے ملاقات کرونگا۔ اس موقع پر اسفندیار ولی نے کہا کہ ہم نواز شریف حکومت نہیں بلکہ عوامی مینڈیٹ کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمشن کو اختیارات ملنے چاہئیں، نظام کو ڈی ریل کرنے کی اجازت نہیں دینگے، فریقین کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے۔ عمران، نواز شریف آپس میں بیٹھیں ورنہ کمیٹی بنا دیں۔ دریں اثناء آصف علی زر داری نے عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر القادری کے خلاف مقدمے کے اندراج کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو بھی اپنے سیاسی مخالفین سے سیاسی انتقام لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ حالات کو کنٹرول کرنے اور ملک کے استحکام کیلئے تمام لوگوں کو کردار ادا کرنا ہو گا۔ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے اتفاق کیا ہے کہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہو نے دیا جائیگا تاہم انتخابی اصلاحات ہونی چاہئیں۔ آن لائن کے مطابق سراج الحق سے ملاقات میں وزیراعظم نے کہا ہے کہ ملکی استحکام کیلئے جمہوریت کا تسلسل ضروری ہے، انتخابات پر کسی کو تحفظات ہیں تو قانونی راستہ اختیار کیا جائے، جمہوریت کو ہر قیمت پر مقدم رکھا جائیگا۔ سراج الحق نے کہا ہے کہ سیاست پانی کی طرح نرم و لچک دار چیز کا نام ہے، دونوں طرف سے تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔ وزیراعظم نے جمہوریت کے استحکام کیلئے جماعت اسلامی کے امیر کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہاکہ ملک میں ایک لمبی آمریت کے بعد جمہوریت آئی ہے اس لئے جمہوری قوتوں کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں۔ انہوں نے کہاکہ ملک اس وقت توانائی بحران اور امن وامان کی بگڑتی صورتحال کا شکار ہے ایسے حالات میں ملک کسی نئی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ذرائع کے مطابق سراج الحق نے وزیراعظم میاں نوازشریف سے مطالبہ کیاکہ حکومت بھی لچک کا مظاہرہ کرے اور صورتحال کی نزاکت کا احساس کرے کیونکہ حالات کو درست رکھنے کی ذمہ داری بہرحال مرکزی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ انتخابی اصلاحات کیلئے پارلیمانی کمیٹی نے اپنا کام شروع کر دیا ہے امید ہے تحفظات دور ہو جائینگے۔ سراج الحق نے کہا کہ موجودہ صورتحال نواز حکومت کی اہلیت کا امتحان ہے۔ ذرائع نے ’’آن لائن‘‘ کو بتایا کہ عمران خان نے سراج الحق سے کہاکہ ہم نے ایک سال سے زائد عرصہ انتظار کیا مگر حکومت نے لچک کا مظاہرہ نہیں کیا اور حکمران اپنی روایتی ہٹ دھرمی پر قائم رہے جس کے باعث مجبوراً ہمیں عوام کے پاس جانا پڑا۔ انہوںنے کہاکہ اب صرف ایک ہی حل ہے کہ نگران حکومت قائم کی جائے اور قوانین کے مطابق نئے انتخابات کرائے جائیں۔ دریں اثناء ترجمان وزیراعظم نے کہا ہے کہ وزیراعظم سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ملاقات کی۔ انہوں نے وزیراعظم کو عمران خان سے ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ سراج الحق نے عمران خان کی جانب سے دی گئی تجاویز سے وزیراعظم کو آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے سیاسی صورتحال میں سراج الحق کی مصالحتی کاوشوں کو سراہا۔ وزیراعظم نے سراج الحق سے گفتگو میں کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں۔ 17 اگست کو ملک میں یوم فلسطین منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ سیاست کی بنیاد نفرت یا چپقلش پر نہیں بلکہ باہمی احترام اور جمہوری اصولوں پر ہونی چاہئے۔ وزیراعظم نے سراج الحق کو عمران خان کی پیش کردہ تجاویز پر غور کی یقین دہانی کرائی۔ وزیراعظم نے کہا کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام تمام جمہوری قوتوں پر فرض ہے۔ تمام مسائل کا حل جمہوریت اور مذاکرات ہی سے نکل سکتا ہے۔ ثناء نیوز کے مطابق وزیراعظم نے ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کے خاتمے کیلئے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی تجاویز پر غور کرنے کا اعلان کر دیا۔ دریں اثناء وزیراعظم نواز شریف کی دعوت پر متحدہ قومی موومنٹ کا وفد (آج) جمعرات کو وزیراعظم ہائوس میں وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کریگا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی متعدد سیاسی قائدین سے ہونیوالی مشاورت کے دوران دیئے گئے مشوروں کی روشنی میں عمران خان سے بات چیت کیلئے پیپلز پارٹی‘ جماعت اسلامی اور دیگر پارلیمانی جماعتوں کے رہنمائوں پر مشتمل کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کمیٹی عمران خان سے موجودہ صورتحال پر بات چیت کرکے ان کو اس بات پر رضامند کرے گی کہ وہ اپنے مطالبات کے حل کیلئے حکومت سے مذاکرات کریں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم کی طرف سے اس کمیٹی کا آئندہ 48 گھنٹوں میں کسی وقت اعلان متوقع ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ اگر عمران خان بات چیت پر رضامند نہیں ہوتے اور تحریک انصاف کی جانب سے امن وامان کی صورتحال خراب کی جاتی ہے تو پھر تحریک انصاف کی قیادت کو نظر بند کئے جانے سمیت دیگر قانونی آپشن بھی استعمال ہوں گے ۔