نوازشریف کی مشاورت جاری‘ وزیراعظم اے پی سی بلائیں‘ ثالثی کرانے پر تیار ہیں : متحدہ…آرٹیکل 245 کا نفاذ واپس‘ طاہر القادری کے گھر کا محاصرہ ختم کیا جائے : سیاسی رہنما
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ بی بی سی+ نیوز ایجنسیاں) وزیراعظم کے ساتھ ملاقاتوں اور مشاورت کا سلسلہ گذشتہ روز بھی جاری رہا جس میں لانگ مارچ اور ملکی صورتحال کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ متحدہ کے وفد نے حکومت کو اے پی سی بلانے کی تجویز دی اور مفاہمت کیلئے کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی معاملہ حل کرانے کیلئے کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ وزیراعظم سے عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم کے وفود کے علاوہ پیپلز پارٹی کے سنیٹر رضا ربانی اور نیشنل پارٹی کے میر حاصل بزنجو نے ملاقات کی۔ رضا ربانی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کو پیپلز پارٹی کے موقف سے آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ آرٹیکل 245 کے فیصلے پر حکومت نظرثانی کرے۔ سیاسی جلسوں سے نمٹنے کے لئے دوسرے قوانین موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طاہر القادری کے گھر کے محاصرے کے فیصلے پر بھی حکومت نظرثانی کرے۔ اے این پی کے حاجی عدیل نے وزیراعظم سے ملاقات کے بعد کہا کہ آرٹیکل 245 کے تحت بنیادی انسانی حقوق سلب ہوتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کا حق ہے کہ وہ احتجاج کرے مگر احتجاج آئین کے دائرے میں ہونا چاہئے۔ نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل بزنجو نے کہا ہے کہ وزیراعظم کو واضح کر دیا کہ جمہوریت پاکستانی عوام نے بہت مشکل سے حاصل کی ہے۔ کسی سیاسی جماعت یا گروپ کو جمہوریت ڈی ریل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ عمران سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مذاکرات کے میز پر آئیں اور 1973ء کے آئین کی ہر حال میں پاسداری کریں گے۔ وزیراعظم نے ملاقات کرنے والوں سے کہا ہے کہ حکومت تمام معاملات کو جمہوری انداز میں حل کرنے کی خواہشمند ہے۔ دریں اثناء وزیراعظم نے عمران کے مطالبات پر اپنے رفقائے کار سے مشاورت کی۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی نواز شریف سے ملے جس کے بعد حکومتی وزرا نے پارلیمنٹ ہائوس میں خورشید شاہ سے ملاقات کی۔ وزراء میں چودھری نثار، سعد رفیق، اسحق ڈار، پرویز رشید اور راجہ ظفر الحق شامل تھے۔ حکومتی ذرائع نے بتایا کہ وزراء نے اپوزیشن لیڈر پر واضح کیا ہے کہ وزیراعظم کے استعفے اور مڈٹرم انتخابات کے سوا عمران خان کے تمام مطالبات پر بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ جو چیزیں بظاہر خراب نظر آ رہی ہوتی ہیں اس میں بھی بہتری کی صورتحال نکالی جا سکتی ہے۔ قبل ازیں وزیراعظم سے ایم کیو ایم کے وفد نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی قیادت میں ملاقات کی۔ وفد میں ڈاکٹر فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی شریک تھے۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ معاملات کا سیاسی حل نکالا جائے۔ الطاف حسین کہہ چکے ہیں کہ ہمیں قربانی دینا پڑی تو دیں گے۔ کوشش ہے کہ جمہوریت ڈی ریل نہ ہو۔ فاروق ستار نے کہا ہے کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیراعظم نے افہام و تفہیم اور بات چیت کی پالیسی اختیار کی۔ پاکستان کسی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ مذاکرات کیلئے مفاہمتی عمل میں کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ دھرنے سے پہلے مذاکرات کی دعوت زیادہ اچھا عمل ہے۔ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کیلئے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے۔ ایم کیو ایم نے وزیراعظم کو انتخابی اصلاحات کیلئے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ فاروق ستار نے کہا کہ وزیراعظم مسائل کے حل کا فیصلہ سیاسی جماعتوں کے قائدین پر چھوڑ دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ثناء نیوز کے مطابق وزیراعظم کو سینٹ میں متحدہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کی بالادستی اور جمہوری سیٹ اپ کے تحفظ کیلئے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروا دی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے کہا ہے کہ جمہوری اداروں کے تحفظ کیلئے مکمل طور پر حکومت کے شانہ بشانہ ہیں، جمہوری و سیاسی استحکام کیلئے حکومت جو اقدام کریگی اپوزیشن کا تعاون حاصل رہے گا اپوزیشن نے یہ یقین دہانی جمعرات کو اسلام آباد میں وزیراعظم محمد نواز شریف سے ملاقات میں کروائی۔ اپوزیشن نے واضح کیا ہے کہ اپوزیشن مکمل طور پر جمہوری سیٹ اپ کے ساتھ ہے کسی صورت جمہوریت کو پٹڑی سے نہیں اترنے دینگے۔ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد اے این پی کے رہنمائوں غلام احمد بلور اور سنیٹر حاجی عدیل نے کہاہے کہ آئین کے دائرہ کار سے باہر کوئی اقدام انقلاب نہیں ہوتا، ایسے انقلاب کو نہیں مانتے، آئین کے اندر رہ کر بات کرنے والوں کا ساتھ دیں گے، آئین کے خلاف جا نے والا غدار وطن ہو گا۔ بعدازاں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے ایم کیو ایم کے رہنمائوں سے پارلیمنٹ لاجز میں ملاقات کی۔ عمران خان کے آزادی مارچ سے متعلق امور پر بھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ ایم کیو ایم کے وفد نے خورشید شاہ کو وزیراعظم سے ملاقات کی تفصیلات بتائیں۔ دریں اثناء ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ڈاکٹر طاہر القادری کو ٹیلی فون کیا۔ دونوں رہنمائوں نے موجودہ حالات پر بات کی۔ الطاف حسین نے کہا ہے کہ حکومت معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہ لے جائے۔ این این آئی کے مطابق فاروق ستار نے کہا ہے کہ مسئلے کا حل مذاکرات سے ہی نکلے گا۔ پوری قوم کو آزمائش میں ڈالے بغیر کوئی حل نکل سکتا ہے تو نکلنا چاہئے، وزیراعظم مشاورتی عمل کو جاری رکھیں۔ بی بی سی کے مطابق مختلف سیاسی جماعتوں کے وفود نے وزیراعظم سے ملاقات کے بعد انہیں اسلام آباد میں فوج طلب کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کرنے اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کے مکان کو کنٹینر لگا کر کئے گئے محاصرے کو ختم کرنے کا کہا ہے۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سنیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ منتخب جمہوری حکومت کو جمہوری طریقہ ہی اپنانا چاہئے۔ میر حاصل خان بزنجو کا کہنا تھا کہ ملک میں جہوریت پہلے ہی بڑی مشکل سے آئی ہے اور سیاست دانوں اور بالخصوص عمران خان کو اپنے رویئے میں لچک پیدا کرنی چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب سیاسی جماعتوں میں بھی اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ دس سال تک مارشل لا برداشت کریں اور پھر جمہوریت کی بحالی کے لئے کوڑے کھائیں۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا مؤقف ایک ہی ہے، پارلیمنٹ پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ دریں اثناء خورشید شاہ نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے رابطے میں ہیں جلد ملاقات ہو گی جب مذاکرات ہونگے تو کچھ لو اور کچھ دو پر بات ہو گی، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم سمیت تمام جماعتیں پارلیمنٹ قائم رکھنا چاہتی ہیں، قائداعظم کا پاکستان ہے کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے تاہم ایسی سازش ضرور کرینگے جو پرامن پاکستان کیلئے ہو۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے رابطہ کیا۔ دونوں رہنمائوں نے موجودہ سیاسی صورتحال اور جماعت اسلامی کی جانب سے مصالحتی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
مشاورت/ ملاقاتیں