سراج الحق بابائے جمہوریت نہیں، سید مودودی بنیں
بابائے جمہوریت بننے کیلئے سراج الحق ایوان صدر جائیں۔ نذیر ناجی نے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ بابائے جمہوریت بننے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ میں تو انہیں وزیر جماعت اسلامی سمجھتا ہوں کہ اب وہ کسی دن صوبہ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ بن بیٹھیں گے۔ پرویز خٹک میں کیا اہلیت ہے۔ وہ عمران خان کے ڈاکٹر عبدالمالک بن سکتے ہیں۔ سراج صاحب پر اعتبار کیا جا سکتا ہے اور ان سے کوئی خطرہ بھی نہیں ہے۔ وہ امیر جماعت شاید اس لئے بنے کہ وہ وزیر کے طور پر معروف ہوئے جبکہ وہ پاکستان کے کسی وزیر شذیر سے مختلف ہیں۔ انہوں نے کوئی قابل ذکر کام خیبر پختونخواہ میں نہیں کیا۔ وہ پہلے مولانا فضل الرحمن کے سینئر وزیر تھے۔ اب عمران خان کے سینئر وزیر ہیں۔ مولانا اور خان میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ دونوں کسی نہ کسی طرح طالبان کے حامی ہیں۔ اس کے لئے دونوں کے اس وجدان مختلف ہیں۔ بہرحال اصل میں دونوں ایک ہیں اور ایک دوسرے کے مخالف بھی ہیں۔ عمران اگر مولانا کی حکومت میں شیئر دے دیتے تو صلح ہو سکتی تھی۔ پھر انہیں نواز شریف نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یہ کام صدر ’’مشرف‘‘ اور ’’صدر‘‘ زرداری بھی کر چکے ہیں۔ مولانا نے صدر ممنون کو نہیں آزمایا ورنہ بہت کچھ ہاتھ آ سکتا تھا۔ لوگوں نے ممنون صدر کو خواہ مخواہ انڈر اسٹیمیٹ کیا ہے۔ میں نے ان کے لئے باتیں سنیں تو ان کا قائل ہو گیا۔ وہ خاصے شریف آدمی ہیں۔ نواز شریف کو ایسے لوگ پسند ہوتے ہیں جو شریف ہوں ’’نواز شریف‘‘ نہ ہوں۔ جنرل راحیل شریف کا تجربہ نواز شریف کے لئے اچھا نہیں رہا۔ اس کے لئے جنرل اور وزیر عبدالقادر بلوچ سے وضاحت لی جا سکتی ہے۔ جو آدمی جرنیل اور وزیر ہو جائے تو اس کے لئے صورتحال مشکوک ہو جاتی ہے۔ جرنیل تو صدر بنتے ہیں۔ بننے اور بنائے جانے میں فرق ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری اور ’’صدر‘‘ ممنون کا موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے نااہل ہونے والے کرپٹ گیلانی صاحب کو وزیراعظم بنایا اور ممنون صاحب کو وزیراعظم نواز شریف نے صدر بنایا۔ اس کے باوجود وہ قابل احترام ہیں کہ انہوں نے اردو ادب کے سب سے بڑے مزاح نگار مشتاق یوسفی کی عیادت کی۔ ایک بہت اچھے اور مقبول شاعر سلیم کوثر کی بھی عیادت کی۔ اللہ ان دونوں حضرات کو صحت کاملہ عطا فرمائے۔ بار بار سلیم کوثر کی اس غزل کو اپنے انداز میں لوگوں نے استعمال کیا ہے۔
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
میں ذاتی طور پر صدر پاکستان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ وزیراعظم نواز شریف کے پاس صرف حامد میر کی عیادت کے لئے وقت ہے۔ سیاسی طور پر یہی کچھ انہوں نے اپنے حق میں سمجھا جو ان کے حق میں نہیں تھا۔ وہ پرویز رشید کو بھیج دیتے کہ وہ دلیل والوں کے ساتھ ہے غلیل والوں کے ساتھ نہیں ہے۔ مگر اب شاید اسی کے مشورے پر اسلام آباد ’’غلیل‘‘ والوں کے حوالے کر دیا گیا ہے جبکہ وہاں دلیل والے بھی موجود ہیں۔
بات میں نے وزیر جماعت اسلامی سراج الحق سے شروع کی تھی۔ وہ جب امیر جماعت بنے تھے تو میں نے تجویز رکھی تھی کہ وہ وزارت چھوڑ دیں۔ بہت دیر کے بعد انہیں یہ مشورہ پسند آیا۔ اب انہیں نواز شریف نے بلایا ہے تو یہ بلاوا امیر جماعت کی حیثیت سے نہیں ہے۔ عمران کی حکومت میں وزیر جماعت کی حیثیت سے ہے۔ وہ سیاست کے بابائے جمہوریت تو کیا بنیں گے البتہ جماعت کے بابائے جمہوریت بن سکتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اب جماعت اسلامی کا امیر لیاقت بلوچ کو ہونا چاہئے تھا مگر میں جماعت کے طرز انتخابات کے سلیقے کا قائل ہوں۔ ایک ہی جماعت ہے جہاں انتخاب ہوتے ہیں اور جینوئن انتخاب ہوتے ہیں۔ ایسے انتخاب نہیں ہوتے جن کے نتیجے میں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بن جاتے ہیں تو منتخب امیر جماعت اسلامی کو بلاتے ہیں۔ ایسے ہی حالات تھے کہ بھٹو صاحب اچھرہ میں مودودی کے گھر چلے آئے۔ سراج صاحب خود غور کریں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
میں حیران ہوں کہ نواز شریف نے سراج صاحب کو عمران خان کے ساتھ سمجھوتے کے لئے منتخب کیا ہے۔ وہ عمران خان کے وزیر رہے ہیں۔ وہ نواز شریف کے کیا رہے ہیں۔ لیاقت بلوچ بھی سیاسی حالات کی سنگینی سے آگاہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں صورتحال کے بند گلی بن جانے کا خدشہ ہے۔ سراج الحق کہتے ہیں کہ وقت کم ہے۔ کچھ کر لو ورنہ کسی سانحے کا خطرہ ہے۔ خدشہ اور خطرہ میں کیا فرق ہے؟ یہ سوال کس سے پوچھنا چاہئے مجھے یاد آیا کہ لیاقت بلوچ سے کسی وزیر شذیر نے پوچھا کہ آپ طاہر قادری کا استقبال کریں گے تو لیاقت بلوچ نے جواب دیا ان کا استقبال کرنے کے لئے دس بارہ گلو بٹ کافی ہوں گے۔ لیاقت بلوچ کی شائستہ سنجیدگی ان کے اندر کی شگفتگی کی راہ میں آڑے نہیں آ سکتی۔ مجھے ایک دوسرے پارلیمنٹرین حافظ حسین احمد کی جملے بازی پسند ہے۔ مجھے سید مودودی کی بذلہ سنجی سننے کا بھی موقع ملا ہے۔ میری خواہش ہے کہ امیر جماعت اسلامی کو کچھ نہ کچھ سید مودودی کے قریب ہونا چاہئے۔ سراج صاحب بابائے جمہوریت نہ بنو۔ سید مودودی بنو۔ مجھے اختلاف بھی کئی باتوں کے لئے ان سے ہے مگر اعتراف بھی ہے۔ وہ بہت بڑے آدمی تھے۔ بڑے لیڈر تھے۔ میری گذارش ہے کہ بابائے جمہوریت بننے کے لئے سراج الحق ایک بار صدر ممنون سے ضرور ملیں۔