پاکستانی سیاست میں ظالم و مظلوم لازم و ملزوم ہیں!
تحریک انصاف میں ’’شیر‘‘ کی اداکارانہ سیاست کرنے والے باغی جاوید ہاشمی اور ن لیگ میں شیر بننے کی کوشش میں غیرسنجیدہ بیانات دینے والے پرویز رشید کا مکالمہ شاید آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کو نبیلہ غضنفر نے نہیں سنایا۔ میرے خیال میں اب آئی جی پنجاب کو ’’گئی جی پنجاب‘‘ کہنا چاہئے۔ پارلیمنٹ ہائوس میں جاوید ہاشمی نے پرویز رشید کو اپنے کسی کارکن کی سفارش کی۔ وہ کسی کا کام نہیں کرتے۔ اس کارکن کا پتہ چلانا چاہئے۔ شاید خوددار اور خدمت گزار غیور و قلندر مخلص اور محنتی ورکر ناصر اقبال خان کو کچھ معلوم ہو ورنہ کارکنوں کو تو کبھی کچھ نہیں ملا۔ پرویز رشید نے کہا کہ اس شرط پر کام ہو گا کہ آپ بلے کی بجائے شیر کو ووٹ دیں۔ میں نے سمجھا کہ پرویز رشید بلے کو باگڑ بلے سے کم نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ آج کل شیر سے زیادہ بلے سے ڈر رہے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے کہا آپ کو علم ہونا چاہئے کہ میں بھی شیر ہوں۔ اب جاوید ہاشمی کو اپنے بارے میں یہ باتیں بتانا پڑ رہی ہیں۔ کسی شیر کو جب ہاتھی نے سونڈ میں جکڑ کر دور پھینک دیا تو وہ لنگڑاتا ہوا ہاتھی کے پاس آیا اور کہا تمہیں پتہ نہیں کہ میں کون ہوں۔ ہاتھی نے نفی میں سر ہلایا تو شیر نے کہا پتہ نہ ہو تو کسی سے پوچھ لینا چاہئے۔ پرویز رشید نے چودھری نثار سے پوچھ رکھا ہے مگر تحریک انصاف میں شاہ محمود قریشی جاوید ہاشمی کو باغی بھی نہیں سمجھتا۔ میں نے پہلے کہا تھا کہ جاوید ہاشمی کو ن لیگ نہیں چھوڑنا چاہئے تھی۔ ورنہ پرویز رشید سے یہ بات تو نہ سننا پڑتی۔
آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے دو تین دن بعد کنٹینرز ہٹانے کا حکم دیا ہے کہ اس طرح ان لوگوں کو بھی تکلیف ہو رہی ہے جو ڈاکٹر طاہر قادری کی عوامی تحریک کے جانثار نہیں ہیں۔ جانثاروں کو تو ایسے کاموں سے تکلیف نہیں ہوتی۔ تکلیف تو عام خواتین و حضرات کو ہوتی ہے۔ میں نے کنٹینرز کے نیچے سے باپردہ عورتوں اور بوڑھیوں کو گھسٹتے ہوئے گزرتے دیکھا تو لرز گیا۔ اس ’’جمہوری اور دلچسپ‘‘ منظر کی وڈیو بھی دکھائی جائے آئی جی کو۔ پولیس افسران کا کلچر اور کریکٹر ٹھیک کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ میں عدالت کا بے حد احترام کرتا ہوں مگر کسی جج کی طرف سے یہ ریمارکس؟ کنٹینرز لگانے سے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔ شاید آئی جی پنجاب کا حکم نامہ پیدل چلتا ہوا پنجاب کے دور دراز علاقوں میں پہنچا۔ وہاں پولیس والے یہ حکم میڈیا پر اور لوگوں زبانی سن چکے تھے مگر حکم کے ’’منتظر‘‘ تھے۔ اس سے اندازہ کریں کہ پولیس والے کتنے غلام اور بے اختیار ہیں۔ تھانہ کلچر کے لئے تھانے والوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ مگر پولیس افسران کی تربیت کی ضرورت بھی ہے۔ مظاہرین راستے بند کریں تو پولیس لاٹھی چارج کرتی ہے۔ اب خود پولیس راستے بند کر رہی ہے تو خواتین و حضرات کیا کریں۔
پولیس والے لوگوں کو ماریں تو بھی قصوروار۔ لوگوں سے مار کھائیں تو بھی قصوروار۔ ان کی حالت زار و قطار کا اندازہ لگائیں کہ ڈی آئی جی آپریشنز بار بار انہیں للکار پکار رہے تھے۔ شرم کرو اور آگے بڑھو۔ کوئی افسر جھوٹ بول رہا تھا کہ زیادہ وٹے (پتھر) میں نے کھائے ہیں جبکہ خون بے چارے چھوٹے اہلکاروں کا بہہ رہا تھا۔ پولیس والے سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہمارا کیا قصور ہے۔ ان میں ردعمل پیدا ہو گیا تو؟ ایک بار انہوں نے ہڑتال بھی کر دی تھی جبکہ دونوں طرح افسران اور حکمران فائدے میں ہیں۔ مظاہرین میں سے کوئی مرے یا پولیس والا مرے۔
ایک یہودی کے گھر میں سانپ گھس گیا۔ وہ ڈر کے باہر نکل آیا تو ایک مسلمان اندر چلا گیا تو یہودی نے کہا میں تمہیں پیسے بھی دوں گا۔ پاس کھڑے دوسرے یہودی نے کہا کہ پیسے ہی دینا تھے تو یہ کام میں کر دیتا۔ یہودی نے کہا کہ سانپ مر جائے یا سانپ مسلمان کو کاٹ لے دونوں طرح سے ہمارا فائدہ ہے۔ تم دیکھتے جائو اور تماشہ دیکھو۔
اپنے جمہوری لانگ مارچ میں نواز شریف نے پولیس کو خطاب کیا تھا اور ایسی باتیں کی تھیں جو طاہر قادری کر رہے ہیں۔ گوجرانوالہ میں ایک پولیس افسر ایس پی اطہر وحید نے گورنر راج کے خلاف استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسے نواز شریف نے سٹیج پر بلا کے چوما تھا ’’میرے ماتھے پہ بوسہ دو‘‘ مگر آج کل اطہر وحید کھڈے لائن ہے کہ نواز شریف جانتے ہیں کون آدمی کس موقع کے لئے مناسب ہے؟ گوجرانوالہ میں 55پولیس والے گرفتار ہوئے۔ خوشاب تھانہ اور کئی پولیس گاڑیاں جلا دی گئیں۔ پولیس والے اس سے زیادہ شرمناک تشدد لوگوں پر کرتے ہیں۔ گوجرانوالہ میں ایک انسپکٹر بھی زخمی ہوا۔ آئی جی بھی انسپکٹر ہوتا ہے اور جنرل بھی ہوتا ہے۔ وہ دونوں نہیں ہوتا۔ نہ انسپکٹر کی طرح کمتر نہ جنرل جیسا برتر؟
میں یہ بات انتظامیہ اور پولیس والوں کے لئے لکھ رہا ہوں کہ اگر راستے بند نہ کئے جاتے، پٹرول پمپ بند نہ ہوتے، کاروبار زندگی بند نہ کر دیا جاتا تو صورتحال اس سے بہت بہتر ہوتی۔ یوم شہدا منا لیا گیا ہوتا تو کیا ہو جاتا۔ 14لاشیں گری تھیں۔ آئی جی پنجاب کو بھی اس میں شرکت کرنا چاہئے تھی۔ رانا مشہود اور خواجہ سعد رفیق بھی آ جاتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ پچھلی دفعہ ’’صدر‘‘ زرداری نے کتنے سیاسی اور جمہوری طریقے سے اس معاملے کو ہینڈل کیا تھا۔ اب کے مین ہینڈلنگ کون کر رہا ہے۔ انسپکٹروں کی شامت آئی ہوئی ہے۔ کل انسپکٹر جنرل کی باری بھی آ جائے گی۔ مشتاق سکھیرا سے عرض ہے کہ لوگوں کو کچھ سُکھ دو۔ گھروں کو سکھی رکھو۔ گھروں کو حوالات نہ بنائو۔ تھانوں میں جیلیں نہیں ہوتیں۔ ملزمان حوالات سے جیل منتقل ہونے کی دعائیں کرتے ہیں۔ پولیس ظالم کیوں ہے۔ وہ مظلوموں کو مزید مظلوم بنانے پر تیار رہتی ہے۔ ظالم کو مزید ظالم بھی وہی بناتے ہیں۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ شہباز شریف نے عمران خان کے گھر جانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے عمران سے دوستی کی پیشکش کر دی ہے۔ ان سے گذارش ہے کہ وہ قادری صاحب کے گھر چلے جائیں۔ آخر گورنر پنجاب چودھری سرور بھی قادری صاحب کے گھر چلے گئے تھے۔ چودھری پرویز الٰہی بھی ساتھ تھے۔ چودھری صاحبان کو منا لینے میں کیا حرج ہے۔ قادری صاحب کو ملنے کے لئے جانے والے چودھری پرویزالٰہی اور شیخ رشید کو پہلے روکا گیا۔ پھر جانے دیا گیا۔ وہ قادری صاحب سے ملے تو کیا ہو گیا۔ یہ فیصلہ کسی پولیس والے کا تھا تو اسے آئی جی پنجاب کی طرف سے ’’انعام‘‘ ملنا چاہئے۔