ما ن جائیں عمران خان جی!‘‘
علامہ طاہر القادری کا ’’انقلاب‘‘ اور عمران خان کا ’’آزادی مارچ‘‘ الگ الگ سوچ کا مظہر ہے۔ شاید اسی لئے چودھری برادران القادری صاحب اور عمران خان کو وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لئے متحد نہیں کر سکے۔ علامہ القادری تحریکِ منہاج القرآن کے سربراہ کی حیثیت سے دسمبر 2012ء میں پاکستان میں انقلاب لانے کیلئے کینیڈا سے تشریف لائے تھے۔ موصوف نے 23 دسمبر کو لاہور میں جلسۂ عام منعقد کر کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف کو بُرا بھلا کہا اور جب اپنی قیادت میں جنوری 2013ء میں لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے لاہور سے اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچے تو اُسے ’’قافلہ حسینی ؓ‘‘ قرار دیا اور (اُن دنوں) صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم راجا پرویز اشرف اور اُن کی حکومت میں شامل مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور نیشنل عوامی پارٹی کے لیڈروں کو ’’یذیدیو! بے شرمو! اور بے غیرتو!‘‘ کہہ کر پکارا لیکن اپنے انقلاب کی ناکامی کے بعد علامہ صاحب نے اُن سب سے بھائی چارہ اور معاہدہ کر لیا تھا۔
علامہ القادری نے یہ معاہدہ تحریک منہاج القرآن کے سربراہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ چیئرمین پاکستان عوامی تحریک کی حیثیت سے کیا جسے موصوف اپنے ہاتھوں دفن کر کے کینیڈا چلے گئے تھے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں علامہ صاحب نے اعلان کیا کہ ’’مَیں اور میرے خاندان کا کوئی فرد انتخابات میں حصہ نہیں لے گا‘‘ اس لئے کہ علامہ صاحب اور اُن کے دونوں بیٹے کینیڈا کی شہریت نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ 2013ء کے عام انتخابات کے ایک سال اور تین ماہ بعد پھر ’’انقلاب‘‘ لانے کے لئے آ دھمکے۔ وفاقی اور حکومتِ پنجاب کو گالی گلوچ کر رہے ہیں، خاص طور پر وزیراعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شبہاز شریف کو۔
اپنی پاکستان آمد سے پہلے 17 جون کو علامہ القادری لاہور میں 14 عقیدت مندوں کو ہلاک کروانے میں کامیاب ہو گئے اور انہیں ’’شہدا‘‘ بھی قرار دے دیا اور کل (10 مارچ) تک ’’اپنے شہدا‘‘ کا یوم منانے سے پہلے موصوف نے مزید سات ’’شہدا‘‘ تخلیق کر لئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی انقلاب لانے کیلئے شہادتوں کا وقت آتا ہے علامہ القادری اپنے دونوں بیٹوں ڈاکٹر حسن القادری، ڈاکٹر حسین القادری کو چلہ کشی کے لئے گھر کے تہہ میں بٹھا دیتے ہیں، طالبان اور دوسرے انتہا پسند گروپوں کے سرپرست مذہبی سیاسی لیڈروں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کہ جن کا کوئی بیٹا، بھائی، بھتیجا، بھانجا اور داماد ’’خودکش حملہ آور‘‘ بن کر ’’جنت الفردوس‘‘ میں نہیں پہنچ سکا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس خالد محمود خان نے پاکستان عوامی تحریک کے مبینہ کارکنوں کی سماج دشمن سرگرمیوں پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’پولیس پر تشدد کر کے اُن کا اسلحہ چھیننا کونسا انقلاب ہے؟‘‘ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا کہ ’’مذموم مقاصد کے لئے خواتین اور بچوں کو ڈھال بنانا انسانیت نہیں ہے۔‘‘ اس معاملے میں بھی علامہ القادری غُچہ دے گئے، اپنے خاندان کی خواتین اور اُن کے بچوں کو ’’انقلابی سرگرمیوں‘‘ سے دور رکھا۔ علامہ القادری کے چیلے چانٹوں نے پولیس گاڑیوں پر پٹرول بم حملے کر کے لاتعداد گاڑیوں کو جلا دیا۔ تین پولیس اہلکاروں کو شہید اور متعدد کو زخمی کر دیا۔ اب علامہ صاحب اور اُن کے ساتھیوں اور عقیدت مندوں کو مقدمات کا سامنا کرنا ہو گا۔
عمران خان کی پاکستان تحریکِ انصاف 13 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں ووٹوں کے لحاظ سے دوسری بڑی پارٹی بن کر اُبھری تھی۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی 35 نشستیں ہیں اور خیبر پی کے میں حکومت۔ یہ حکومت بھی وزیراعظم نواز شریف کے خلوص کا مظہر ہے۔ اگر وزیراعظم حکمرانوں کے سدا بہار ساتھی اور اتحادی مولانا فضل الرحمن کی باتوں میں آ جاتے تو مسلم لیگ (ن) توڑ جوڑ کر کے وہاں اپنی حکومت بنا سکتی تھی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان خیبر پی کے کو اپنا "POWER BASE" بنا کر وہاں کے عوام کو ترقی اور خوشحالی سے ہم کنار کر کے 2018ء کے عام انتخابات میں بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے اور وزیراعظم بن جاتے؟
عام انتخابات میں دھاندلی کی شکایات تھیں تو عمران خان اور اُن کی پارٹی کو عام انتخابات کے فوراً ہی بعد میدان میں اترنا چاہیے تھا۔ عمران خان نے ابتدا میں 4 نشستوں پر دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا تھا جسے مسلم لیگ (ن) کے وزراء نے قومی اسمبلی کے ایوان میں تسلیم بھی کر لیا تھا لیکن یہ وعدہ پورا نہ کئے جانے کی وجہ سے کشیدگی بڑھتی گئی اور بات آزادی مارچ تک پہنچ گئی۔ علامہ طاہر القادری کشیدگی سے فائدہ اٹھانے کے لئے ’’انقلاب کا لُچ‘‘ تلنے کے لئے پاکستان واپس آ گئے۔ اِس بار حکمرانوں کو ’’مار بھگانے‘‘ کے اعلانات پہلے سے زیادہ ہیں۔
علامہ القادری اپنی تقریروں میں اکثر پاک فوج کے "IN SERVICE" چیف کی خوشامد کرتے رہتے ہیں اور یہ تاثر بھی دیتے ہیں کہ ’’جب بھی جمہوریت کی صف لپیٹی گئی تو انہیں نگران وزیراعظم بنایا جائے گا۔‘‘ دسمبر 2012ء میں بھی اُن کی یہی خواہش تھی جو پوری نہیں ہوئی۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے پاک فوج کے 55 ہزار افسران اور جوان تو مسلمہ طور پر ’’شہید‘‘ ہیں۔ علامہ القادری نے چالاکی یہ کی کہ ’’اپنے شہدأ‘‘ اور پاک فوج کے شہدأ کی یاد کے لئے ایک ہی دن منتخب کر لیا۔ ایک لحاظ سے علامہ القادری نے پاک فوج کے شہدأ سے زیادتی کی ہے۔
وزیراعظم کی طرف سے منعقدہ قومی سلامتی کانفرنس میں علامہ القادری کو مدعو نہیں کیا گیا۔ اچھا کِیا۔ عمران خان کی پارٹی نے بائیکاٹ کیا۔ عمران خان سے مذاکرات کے بعد جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق نے وزیراعظم سے ملاقات کی۔ انہوں نے مثبت رویہ اختیار کیا۔ وزیراعظم نے عمران خان کے 4 حلقوں کے مطالبے سے بڑھ کر 10 حلقوں میں دوبارہ گنتی کرانے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان علامہ القادری کے انقلاب کے ’’اثراتِ بد‘‘ دور کرنے اور مُلک کی سیاسی فضا کو خوشگوار بنانے کے لئے آزادی مارچ ملتوی کر دیں۔ مان بھی جائیں عمران خان جی!
کیف حکومت کیساتھ جنگ بندی پر تیار ہیں‘مشرقی یوکرائن کے روس نواز علیحدگی پسندوں کا اعلان