نونہالوں میں ”جشن آزادی منانے کا شوق“
مظہرحسین شیخ
ماہ اگست کے آغاز میں جشن آذادی کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں گلیوں بازاروں سرکاری وغیر سرکاری عمارتوں کو سبز ہلالی پرچموں سے سجایا جاتا ہے،ننھے مُنے دوست جہاں عیدالفطر کے موقع پر ملبوسات کی خریداری میں مصروف نظر آتے ہیں وہاں جشن آذادی کے موقع پرسٹکر بیج اورجھنڈیاں خریدنے میں تاخیرنہیں کرتے تاکہ اس قومی تہوار کو جوش و خروش سے منایا جا سکے۔لیکن ہم اپنا یہ دن جوش و جذبے کے علاوہ دوسرے طریقے سے مناتے ہیں جس میں احترام نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اسلام جس نے انسانیت کو جلا بخشی اور انسان کو انسان ہونے کا درجہ دیا۔ اخلاقیات کا درس دیا۔ محبت و اخوت کا پیغام دیا۔ بھائی چارے کو فروغ دیا‘ ہم اس خوشی کے موقع پرکیا کرتے ہیں؟ اس کا اندازہ ہمیں چودہ اگست کے روز ہو جاتا ہے۔ ہمارے نوجوان جو قوم کا مستقبل ہیں۔ قوم کے معمار ہیں اور قومی تہوار پر کیا کچھ کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ ٹولیوں کی ٹولیاں موٹر سائیکلوں پر نکلتی ہیں چھیڑ چھاڑ کرتے۔ آوازیں کستے‘ ایک دوسرے کے پیچھے اندھا دھند بھاگتے دکھائی دیتے ہیں۔ زیادہ تر نے اپنی موٹر سائیکلوں کے سائیلنسرکی بفل نکالی ہوتی ہے جن کی آواز میلوں دور سنائی دیتی ہے گھر میں بیٹھے بیمار افراد‘ پڑھنے والے بچے ان آوازوں سے پریشان اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں۔ کاغذ اور کپڑے کی بنی پاکستانی جھنڈیاں یا پرچم پا¶ں تلے روندے جاتے ہیں۔پرچم کی بے ادبی ہوتی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس قومی تہوار کو ادب اور اخلاق کے دائرے میں رہ کر منائیں اس دن اچھے اچھے پروگرام ترتیب دئیے جائیں جن میں بچوں اور نوجوان نسل کو پاکستان کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ انہیں شعور دیا جائے کہ یہ ملک کن قربانیوں کے بعد وجود میں آیا۔ ہمیں اس کی حفاظت کیسے کرنی چاہئے۔ قدرت نے ہمیں آزادی جیسی نعمت عطا کی‘ ہمیں اس نعمت کا تحفظ کیسے کرنا ہے۔ ہمیں دنیا کو بتانا ہے کہ ہم ایک باوقار قوم ہیں اور اس کیلئے اپنے عمل سے ثابت کرنا ہے۔
ہمارا پیارا وطن جہاں ہم آزاد زندگی بسر کر رہے ہیں پہلے ہندوستان کا حصہ تھا۔اس خطے کو برصغیر کہتے ہیں۔ برصغیر پر مسلمانوں کی حکومت تھی پھر انگریز تجارت کے بہانے آئے اور اپنے قدم پکے کرنے کےلئے انگریزوں نے ہندوستان کے باشندوں میں پھوٹ ڈالنا شروع کر دی اور نہایت چالاکی سے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ ہندوستان کے باشندوں کو انگریزوں کی چال کا پتہ چل چکا تھا انہوں نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کےلئے تحریکیں چلائیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندو اور انگریز کبھی بھی مسلمانوں کے خیرخواہ نہیں ہو سکتے۔قیام پاکستان سے قبل مسلمانوں کو ہندوستان میں یہ عزت و وقار حاصل نہ تھا جو اس آزاد وطن کے طفیل ہماری پہچان ہے۔پاکستان ہمارا گھر ہے اس” گھر“ کوحاصل کرنے کے لئے ہمارے بڑوں نے بے شمار قربانیاں دیں،23 مارچ 1940سے لے کر 14اگست 1947ءتک تحریک پاکستان کا سفربڑا طویل ہے اوریہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ،اس دن کو منانے کامقصد نئی نسل میں شعور پیدا کرنا ہے،ان کویہ سمجھانا ہے کہ پاک وطن کی آزادی کے لئے جس طرح ہمارے بڑوں نے قربانیاں دی ہیں ہمیں بھی چاہئے کہ ملک وقوم کی سلامتی کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار رہیں اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم میں سے ہر کوئی اپنا فرض ایمانداری سے ادا کرے گانسل نو کو چاہئے کہ اپنے پیارے وطن کا نام روشن کرنے اور پاک وطن کی ترقی اورخوشحالی کے لئے خوب تعلیم حاصل کریںکیونکہ تعلیم کے بغیر انسان نامکمل ہے بعض بچوں کا خیال ہے کہ مال ودولت سے انسان بڑا آدمی بنتا ہے یہ بات بالکل غلط ہے۔ تعلیم اور اعلیٰ کردار کا مالک انسان ہی بڑا آدمی بناتا ہے بڑا آدمی بننے کے لئے ہمیں اپنے محسن اپنے قائد بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نقش قدم پر چلنا ہوگا ان کے سنہری اقوال کو عملی جامہ پہنانا ہو گا ۔جو قومیں اپنے محسنوں کو بھولتی ہیں، ناکا می ان کا مقدر بن جاتی ہیں۔تاریح گواہ ہے قائد اعظم کو تحریک پاکسان سے قیام پاکستان تک کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور جو فیصلہ کیاتھا اس پر عمل کر کے دکھایا14اگست کا تاریحی دن بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی بڑے جوش وخروش سے مناتے ہیں۔یہ دن ہماری قومی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب تحریک پاکستان کے رہنما اپنے عظیم لیڈر حضرت قائد اعظم کی قیادت میں لاہور کے اقبال پارک ( منٹو پارک تھا) میں جمع ہوئے اور آزاد وطن پاکستان بنانے کی قرار داد 23مارچ کومنظور ہوئی،اور پاکستان بنانے کا مطالبہ تسلیم کر لیاگیا چاہئے تو یہ تھا کہ اس کے چند ماہ بعد پاکستان بن جاتا لیکن دشمن کاخیال تھا کہ اس تحریک کو دبا دیا جائے گا وہ اپنی اس غلط فہمی میں مبتلا تھے،تحریک پاکستان سے قیام پاکستان تک کے واقعات سے کون واقف نہیں ،آپ نے اپنی نصابی کتب میں سب کچھ پڑھا ہو گا۔آزادی حاصل کرنے کے بعد مملکت پاکستان معرض وجود میں آیا ۔14 اگست1947ءکو ایک عظیم اسلامی ریاست دنیا کے نقشے پر ابھری مملکت خداداد پاکستان کے حصول کےلئے دی جانے والی قربانیوں کی داستان بڑی طویل ہے۔ لیکن ہمیں ایک بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ ہماری آن بان، عزت، شہرت وقار وطن عزیز کی ہی وجہ سے ہے آج اگر کوئی جج ہے، سائنس دان ہے، ڈاکٹر، ہے،انجینئر ہے کارخانہ دار ہے، دولت مند ہے تو صرف اور صرف پاکستان کی وجہ سے ہے۔ ہمارا پیارا وطن پاکستان جہاں ہم آزادی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور سکھ کا سانس لے رہے ہیں بے شمار قربانیوں اور جدوجہد کے بعد حاصل کیا تھا۔
ساتھیو! یہ وطن ہمارا ہے اور ہم ہی اس کے پاسبان ہیں۔آیئے عہد کریں کہ گزشتہ برسوں میں ہم سے یا ہمارے ”بڑوں“ سے جو کوتاہیاں ہوئی ہیں ان کو ہر گزنہیں دہرائیں گے ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارا ہر قدم وطن کی خوشحالی اور استحکام کےلئے ہو اگر پاکستان ہے تو ہم ہیں ہماری عزت و آبرو محفوظ ہے اگر پاکستان نہیں تو پھر ہمارے وجود کا بھی کوئی مقصد نہیں۔
مسلم لیگ کا ہوا قیام
ہر سو پھیلا یہ پیغام
ایک الگ ہے مسلم قوم
وہ تاریخی ایک تھا یوم
اک نعرہ پھر ہوا بلند
سب جس کے تھے حاجت مند
ہند میں چمکی ایک سیاست
لیں گے اپنی ایک ریاست
گونج اٹھا پھر ہندوستان
لے کے رہیں گے پاکستان
پاکستان کا مطلب کیا
لا الہ الااللہ
بوڑھے بچے اور جوان
عظمت کا تھے ایک نشان
جوش اور جذبے کا یہ عالم
دیکھ کے بھڑکے سارے ظالم
پکڑا جب تحریک نے زور
ہر سو مچ گیا پھر یہ شور
پکڑو پکڑو ان کو مارو
گردن ان کی تن سے اتارو
وحشت کا پھر ہوا آغاز
کان پڑی نہ سنے آواز
نیزے تلواریں اور بھالے
لے کر سکھ اور ہندو لالے
چڑھ دوڑے یہ وحشی بن کے
آزادی کے متوالوں پہ
دھرتی خون سے ہو گئی لال
کٹ گئے احسن اور بلال
کیا بوڑھے کیا مرد و زن
پہن تھا رکھا ایک کفن
ایک تھے قالب اور اک جان
ہو گئے وطن پہ سب قربان
بالآخر وہ دن بھی آیا
خوشیوں کا پیغام جو لایا
تھا چودہ اگست کا دن
جناحؒ ہمارے تھے محسن
آپ کا فولادی کردار
لے آیا سب کو اس پار
اک نعمت ہے پاکستان
اس سے ہم سب کی پہچان
فاروق اے حارث
وطن کی شان
پاک وطن اتناپیارا سب کی آنکھ کا تارا
آو¿ اس کی شان بڑھائیں دُشمن کوہم ماربھگائیں
ہوجہاں میں اُونچا نام کریں گے ہم ایسے کام
مرے وطن کی شان نرالی پرچم اس کا سبز ہلالی
اس کی خاطر جاں قربان یہ ہے ہم سب کی پہچان
قرا¿ت مختار لاہور