قائد کا مسلم قومیت کا تصور
قائدِ اعظم کے نزدیک مسلمانوں کی الگ قومیت کی بنیادی اور واحد موثر وجہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا مذہب جدا ہونا ہے اس لئے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ مذہب کو قومیت کی اساس تسلیم کرتے تھے یہ ٹھیک ہے کہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر نہ رہ سکنے کی وجوہ کچھ اور بھی تھیں مثلاً یہ کہ ہندوؤں کا معاشرتی رویہ مسلمانوں کے متعلق اچھا نہ تھا بلکہ توہین آمیز تھا۔ علیحدگی پسند ذہنیت اور مذکورہ بالا معاشرتی رویے کے باعث ہندو معاشی و مفاداتی شعبہ ہائے زندگیمیں مسلمانوں کے ساتھ عدل و مساوات کا سلوک کر ہی نہ سکتے تھے۔ لیکن یہ وہ وجوہ ہیں جنہیں شکایت کا درجہ تو دیا جا سکتا ہے اور جن کی تلافی بھی ہو سکتی ہے لیکن قائداعظم نے انہیں علیحدگی کی وجوہات نہیں بنایا۔ قائد نے معاشی و مفاداتی بنیادوں کو بھی مدِ نظر رکھا مگر انہوں نے اپنی قومیت کی مثبت بنیاد اور مرکزی معیار مذہب ہی کو قرار دیا باقی امور کو اضافی قرار دے کر ثانوی جگہ دی۔ آج کل کچھ عناصر یہ بات ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ مطالبۂ پاکستان کے پیچھے مذہبی عنصر کارفرما ہی نہیں تھا، یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے بلکہ معاشی و معاشرتی شعبوں میں جو ڈر مسلمانوں کو تھا وہ مذہبی فرق ہی کی وجہ سے تھا۔ یہ مسئلہ غریبوں اور امیروں کا بھی نہ تھا اگر ایسا ہوتا تو ہندو غریب اور مسلم غریب مشترکہ محاذ قائم کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا، یہ مسئلہ کسی خاص صوبے یا صوبوں کا بھی نہ تھا اگر ایسا ہوتا تو وسطی جنوبی ہند کے مسلمان شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کی خاطر اتنی قربانیاں کیوں دیتے جن کے نتیجے میں جو پھل ملناتھا اس سے محروم رہنا متوقع تھا۔ اسکے علاوہ صوبائی اصول پر یہ مسئلہ ہندو مسلم مسئلہ نہ ہوتا بلکہ شمالی صوبوں اور دوسرے صوبوں کے درمیان ایک معاملہ ہوتا۔بنیادی طور پر قائدِ اعظم نے ایک علیحدہ ملک کا جو مطالبہ پیش کیا اس کی بنیاد مذہب تھی۔ یہ بات بلا تامل کہی ہی جا سکتی ہے کہ مسلم عوام نے جس جوش و خروش سے پاکستان کی حمایت کی اسکا سب سے بڑا خارجی محرک جذبۂ دین اور عشقِ اسلام ہی تھا یہی وجہ تھی اس وقت بچے بچے کی زبان پر نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ۔ ممکن ہی کچھ دانشور اس وقت بھی کسی دوسرے انداز میں سوچتے ہوں مگر عام مسلمان اس ساری آویزش کو دین کے زاوئیے سے دیکھتا رہا۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کی تخلیق میں دینی نعرے نے بڑا حصہ لیا لیکن یہ بھی درست ہے کہ حصولِ پاکستان کے بعد قومی زندگی میں دین کو وہ جگہ نہیں ملی جس کا ذکر تحریکِ پاکستان میں بڑی شد و مد کے ساتھ کیا گیا تھا۔ پہلے تو دین کو قومی زندگی کی بنیاد تسلیم کرنے ہی سے انکار کیا گیا لیکن باامرِ مجبوری اگر تسلیم کیا گیا تو اس کی شکل وہ بتائی جو مغربی تمدن کی بھونڈینقالی کے سوا کچھ نہ تھا اور اس وقت اسلام کی اسی شکل کو نافظ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔