اللہ کا انعام … پاکستان
تحریک پاکستان کے یوں تو تمام پہلو ہی قابل ذکر اور تاریخی اہمیت کے حامل ہیں تاہم ایک پہلو ایسا ہے کہ جس پر آج بھی مؤرخین، جغرافیہ دان اور ماہر عمرانیات حیران و ششدر ہیں وہ یہ کہ 1930ء کے علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد اور 1940ء کے اجلاس لاہور کے درمیان صرف 10 سال کا وقفہ ہے۔ اگر اس میں 1947ء تک کا دورانیہ بھی شامل کر لیا جائے تو یہ کل مدت صرف 17 سال ہے۔مورخین و جغرافیہ دان خود کو یہ سوال پوچھنے پر مجبور پاتے ہیں کہ 17سال کے مختصر عرصہ میں اپنے وقت کا سب سے بڑی اسلامی ملک پاکستان کیسے قائم ہو گیا؟ انگریز اور ہندو بے پناہ وسائل اور لامحدود قوت وطاقت رکھنے کے باوجود مسلمانوں کے مقابلے میں کیوں ناکام رہے؟ بلاشبہ پاکستان کا قیام انگریزوں اور ہندوئوں کی ذلت آمیز ناکامی انسانی تاریخ کا محیرالعقول واقعہ وکارنامہ ہے۔ اس محیّرالعقول کارنامہ کے وقوع پذیر ہونے کا سبب علامہ محمد اقبال کے خطبہ الہ آبادکے اس ایک فقرے میں مضمر ہے کہ ’’اسلام ایک زندہ قوت ہے۔‘‘ بات یہ ہے کہ اسلام اور غلامی اسلام اور بزدلی دو مختلف چیزیں ہیں۔ دونوں میں بعدالمشرقین ہے۔ جہاں اسلام ہے وہاں بزدلی و غلامی کا کوئی گزر ومقام نہیں۔ جیسے تاریکی کا کوئی مثبت وجود نہیں یہ صرف روشنی کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ جب روشنی آ جائے تو تاریکی خود بخود کافور ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب مسلمان حقیقی معنوں میں مسلمان بن جائیں تو ان کے لئے منزل مقصود پر پہنچنا آسان، بزدلی مفقود اور غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گرتی ہیں۔تحریک آزادی کا یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے جس ملک کا خواب دیکھا اور جس راستے کا انتخاب کیا اس کی منزل صرف اور صر ف اسلام تھی۔ یہ اسلام کی ابدی صداقت و حقانیت ہی تھی کہ جس نے برصغیر کے طول وعرض میں بکھرے مسلمانوں کو سیسہ پلائی دیوار بنا دیا، متحد و متفق کر دیا اور ان کو ایک ایسی زندہ قوت بنا دیا کہ جس سے ٹکرانا اور جھٹلانا انگریز اور ہندو کے بس میں نہ رہا۔ اسلام نے مسلمانوں کو کچھ اس طرح سے ایک لڑی میں پرویا کہ ہندوستان کے وہ علاقے جن کا پاکستان میں شامل ہونے کا تصور بھی نہ کیا جا سکتا تھا مثلاً بہار، یوپی، پٹنہ، آگرہ، لکھنؤ، کانپور، فرخ آباد، قنوج، سہارنپور اور ڈیرہ دون وغیرہ کے مسلمانوں نے بھی پاکستان کے قیام کیلئے جانیں ہتھیلی پر رکھ لیں اور سردھڑ کی بازی لگا دی حالانکہ ان خطوں کے مسلمان اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے کہ جغرافیائی طور پروہ پاکستان کا حصہ نہیں بن پائیں گے۔ انہیں اس بات کا بھی احتمال تھا کہ وہ شائد بحفاظت پاکستان پہنچ بھی نہ پائیں۔ اس کے باوجود ایک ہزار کی ہندو آبادی میں رہنے والے ایک مسلمان کیلئے بھی یہ نعرے بہت پُرکشش تھے
’’پاکستان کا مطلب کیا … لا الہ الا اللہ‘‘
’’جیسے لیا تھا ہندوستان ویسے ہی لیں گے پاکستان‘‘۔
پاکستان کیلئے قربانیاں دینے والوں نے اپنا فرض پورا کر دیا، ان کی قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجہ میں یہ ملک قائم ہوا، یہ ملک ہمارے لئے اللہ کا انعام، ابرِ بہار، شجر سایہ دار اور نعمت پروردگار ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم مملکت خداداد کی قدر کریں۔ موجودہ حالات میں ہمیں مایوس و ناامید اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ شکار صرف شاہین اور شہباز کا کیا جاتا ہے۔ پاکستان بھی اسلامی دنیا کا شاہین اور شہباز ہے عالم اسلام کا بازوئے شمشیر زن ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا اس لئے یہ غیر مسلموں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ کیا ہوا اگر دشمن زیادہ ہیں … طاقتور ہیں … ہمارے بارے میں ناپاک عزائم وارادے رکھتے ہیں … دشمن تو 1947ء میں بھی تھے اور چاہتے تھے کہ پاکستان قائم ہی نہ ہو۔ ان کے نہ چاہنے کے باوجود یہ ملک قائم ہوا اور اس نے تاقیامت سلامت رہنا ہے۔ انشأاللہ۔ بات یہ ہے کہ دشمنوں کا کام ہی دشمنی کرنا ہے۔ سو دشمنوں سے دشمنی کا کیا شکوہ! دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت ہم خود اپنے ملک کیلئے کیا کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب سے پہلے اللہ کے ساتھ مخلص ہو جائیں، بزدلی کو چھوڑیں، جہاد کو زندہ کریں، اسلام پر عمل کریں، اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیں، سیاسی، سماجی اور مذہبی سطح پر ایک دوسرے کا احترام کریں۔ ہمارے رہنمائوں اور حکمرانوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ رنجشوں، کدورتوں، تنازعات اور اختلافات کو ہَوا دینے کی بجائے افہام و تفہیم اور اتحاد و اتفاق کی فضا پیدا کریں۔ صرف پاکستان ہی نہیں عالم اسلام کے بارے میں بھی سوچیں۔ اس وقت پورا عالم اسلام مصائب کا شکار ہے۔ غزہ لہو لہو ہے۔ افغانستان، عراق، بھارت اور مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان بھی ابتری کا شکار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں۔ اس فرمان کی روشنی میں ہمارا مستقبل عالم اسلام کے ساتھ اور عالم اسلام کا مستقبل ہمارے ساتھ وابستہ ہے۔ مظلوم خطوں کے مسلمان پاکستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے اس کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کریں اور اسے مضبوط و مستحکم کریں۔