یوم آزادی اور … شیر پنجرے میں!
آج یوم آزادی ہے۔ ہر سال ہمارا یہ خواب ہوتا ہے کہ ہر سال یوم آزادی پر کالم لکھنے سے قبل حکومت کی طرف سے قیام پاکستان کے کسی نہ کسی مقصد کی تکمیل ہو چکی ہوگئی اور ہم اپنے کالم میں فخر سے اس کا ذکر کرسکیں گے۔ مگر بد قسمتی آج تک ہمارا یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا بلکہ ہمیں ہی شرمندگی سے دو چار ہونا پڑا ہے۔ آج وطن عزیز کو معروض وجود میں آئے 67 سال ہوگئے ہیں۔ جن مقاصد کی تکمیل کے لئے وطن عزیز کو حاصل کیا گیا ان کی تکمیل تو دور کی بات ہے ہمارے حکمرانوں کو چاہئے وہ آمر ہو یا ’’جمہوری‘‘ انہیں ان مقاصد سے آگاہی بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 67 سال بعد بھی ہم بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ محب وطن قیادت کا فقدان، ماضی کو چھوڑ ئیے حال پر ہی نظر ڈالئے موجودہ حکومت کو بھی پندرہ ماہ ہونے کو ہیں۔ جن وعدوں کی بنیاد پر ن لیگ نے اقتدار حاصل کیا۔ ان میں کوئی ایک بھی ابھی تک عوامی مسئلہ حکومت حل نہیں کرسکی۔ زبانی جمع خرچ کے سوا نہ ہی کوئی واضح پالیسی دکھائی دے رہی ہے۔ احتجاج کرنا جمہوری دور میں عوام کا حق ہے۔ جمہورت میں عوام اور سربراہ کے طرز زندگی اور بودو باش میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ چونکہ لیڈر عوام کا ہی منتخب کردہ ہوتا ہے لہٰذا لیڈر عوامی ضروریات کو اپنی ذاتی ضروریات پر فوقیت دیتا ہے۔ مہذب ممالک میں آج بھی ایسا ہی ہے۔ بقول حضرت قائداعظمؒ ہم نے جمہوریت آج سے تیرہ سو سال قبل خاتم النبین ؐ سے سیکھی تھی۔ یہ جمہوری رویہ تھا کہ جب کچھ صحابہ ؓ بھوک کی شدت کی وجہ سے پیٹ پر ایک ایک پتھر باندھ کر آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہورکر اظہار کرتے ہیں۔ قربان جاؤں آپؐ کے مبارک جوتوں کے نشانات پر بھی، کہ آپ اپنے صحابہ ؓ کو اپنا پیٹ مبارک دکھاتے ہیں کہ اے میرے صحابہ ؓ دیکھو میری بھی یہی حالت ہے میں نے دو پتھر اپنے پیٹ مبارک پر باندھ رکھے ہیں۔ یہ ہے اصل جمہوری رویہ 67 سال میں ہمیں جس ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ اس کی حالت یہ ہے کہ غریب کو دو وقت کی روٹی بھی نہیں ملتی مگر وزیراعظم ہاؤس کا ایک دن کا خرچہ 10 لاکھ روپے ہے۔ ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر چند خاندان اربوں کھربوں پتی بن گئے ہیں۔ مگر عوام کا ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوا۔ کیوں؟ کوئی ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر لوٹنے آتا ہے۔ کوئی اسلام کے نام پر عوام کو بے وقوف بناتا ہے۔ کوئی انصاف کے نام پر بے انصافیاں کرتا ہے۔ کوئی عوام کے نام لے کر تمام ملکی ادارے ہی تباہ کر کے چلا جاتا ہے۔پھر آوازیں سنائی دیتی ہیں کہ ایسی ’’ جمہوریت‘‘ کو چلنے دیا جائے۔ حیرت ہے جب ایک چھوٹا بچہ سگریٹ نوشی کرتا ہے تو فوراً اسے منع کردیا جاتا ہے تو ایسی نام نہاد ’’جمہوریت‘‘ جس میں صدر، وزیراعظم اور عام آدمی کے طرز زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہو۔ غریب کو با عزت روٹی بھی نہ ملے دوسری طرف وزیراعظم ہاؤس ایک ماہ میں 10 لاکھ کھا جائے۔ بیرونی ممالک سے قرضوں کی آڑ میں اربوں کھربوں لے لئے جائیں۔ ایک ملک سے ڈیڑھ ارب ڈالر تحفے کی مد میں وصول کرلئے جائیں تو پھر عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ یہ کیسا جمہوری رویہ ہے؟ عوام کے جلسوں میں پولیس کو گولیاں برسانے کی کھلی اجازت ہو، آواز نکالنے والے کو مار دیا جائے اس کا گلا دبا دیا جائے تو اسے جمہوری لبادے میں آمرانہ رویہ ہی کہا جائے گا۔ پرامن احتجاج کرنے دیا جائے یہ حق ہر کسی کو حاصل ہے۔ عدل کرو، طاہر القادری کو پر امن احتجاج کرنے دیجئے۔ عمران خان کا بھی جمہوری و آئینی حق ہے۔ جب تک دونوں پارٹیاں آئین کے اندر رہ کر مارچ کرتی ہیں انہیں تشدد کا نشانہ بنانا پکڑ دھکڑ کرنا یہ آمرانہ رویہ ہے۔ وزیراتعلیم اور اب قانون کا قلم دان بھی ان کے پاس ہے۔ ایسی زبان طاہر القادری کے لئے ان کے عقیدت مندوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ بدمعاش، کہہ کر وزیر تعلیم انہیں پکارتے ہیں، جس ملک کے وزیرتعلیم کی زبان ایسی ہوگی اس ملک کی تعلیم حال بھی ایسی ہی ہوگا۔ بلاشبہ نا کام لیگ اپنے وعدوں اور دعوؤں کے مطابق ایک فیصد بھی Belive نہیں کرسکی۔ اب احتجاج برداشت کرے مگر آپ وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے شیر‘‘ 14 ماہ عوام کا ٹیکسز مہنگائی بیرزو گاری کی مد میں خون نوچتا رہا ہے اب ہر طرف سے پنجرے میں بند ہو چکا ہے۔ ایسے وقت کے آنے کا احساس اسے پہلے ہی ہونا چاہئے تھا اگر آغاز میں ہی عمران خان کے چار حلقوں کا مطالبہ مان لیا جاتا تو آج یہ صورت حال نہ ہوتی مگر کیسے مان لیا جاتا اب تو یوں لگ رہا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی نہیں بلکہ دھاندلہ ہوا تھا۔