• news

-14 اگست اور پاکستانی معاشرے کا اخلاقی بحران

آج پاکستان آخری عہد مغلیہ کے زوال کا منظر پیش کر رہا ہے جب آئے دن کمزور مرکز پر باغی صوبے یلغار کیا کرتے تھے۔ پاکستان کے 68 ویں -14 اگست کی آمد آمد ہے اور شاخِ نازک پر بیٹھی جمہوریت کسی خوفزدہ چڑیا کی مانند کپکپا رہی ہے۔ امریکہ بہادر کی گارنٹی سے پندرہ سالہ لیز پر حاصل کی گئی اس جمہوری دوشیزہ کو بہت سے ڈشکرے للچائی ہوئی کھا جانے والی نظروں سے گھور رہے ہیں۔ ہمیشہ ڈکٹیٹرز کی کابینہ میں شامل رہنے والے چوہدری برادران مشرف کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی بننے والے شیخ رشید ڈاکٹر طاہر القادری کو اپنا انقلاب آزادی مارچ میں ضم کرنے پر تقریباً راضی کر چکے ہیں جبکہ عمران خان صاحب اپنے وزیراعظم کا خواب چکناچور ہوتے دیکھ کر اور خیبر پختونخواہ میں اپنی صوبائی حکومت کی ناقص کارکردگی اور آئی ڈی پیز جیسے قومی المیے سے چشم پوشی کرتے ہوئے فیصلہ کن حملے کی تیاری کر چکے ہیں۔ -14 اگست کو اسلام آباد کو ایک مرتبہ پھر محاصرے میں لیکر انارکی، انتشار اور بدنظمی پیدا کرنے اور فوج کو ماوراء آئین اقدام کی ترغیب دینے کی تیاریاں مکمل کی جا چکی ہیں۔ باغی نواز شریف حکومت کی معزولی سے کم کسی چیز پر راضی نہیں۔ایک جانب نواز شریف کا شاہانہ طرزِعمل ہے تو دوسری جانب عمران خان کی آمرانہ سوچ۔ عوام ہوسِ اقتدار کے اس برہنہ کھیل سے لاتعلق الگ کھڑے ہیں۔ ایسا نظام جہاں عام پاکستانی کے پاس مغربی ممالک کے کتوں سے بھی کم حقوق ہیں۔ آخر وہ اس نظام کو بچانے میں کیوں اور کیا دلچسپی رکھتے ہیں جو اُنہیں بجلی گیس دینے سے معذو ر ہو، ہسپتال میں دوائی نہ ہو، تھانے میں رسائی نہ ہو، عدالت میں انصاف نہ ہو اور جسم و جاں کا تعلق قائم رکھنے کیلئے روزگار نہ ہو۔ ہمارے موجودہ حکمران یہ باریک راز سمجھنے سے قاصر ہیں کہ معیشت کے ساتھ ساتھ سماج کی ہر قدر اور نظام کا ہر شعبہ زوال کا شکار ہے۔ مارکس کے جنازے پر اینگلز نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: ’’مارکس نے وہ سادہ حقیقت دریافت کی جسے اب تک فلسفے کی حد سے زیادہ مغز ماری نے چھپا رکھا تھا۔ سیاسیات، سائنس، آرٹ اور مذہب پر غور و فکر کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ انسان کو خوراک، رہائش اور لباس میسر ہو۔‘‘ جو سماج انسان کی حیوانی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہو وہاں حسِ لطیف اور جمالیات کا ذوق کبھی نہیں پنپ سکتا۔ معاشرے سے زندگی کے آثار ایک ایک کرکے ختم ہو رہے ہیں عام لوگ حیرت زدہ ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کھیلوں کا ذوق اور میدان ویران کیوں ہو گئے، سینماگھر خالی کیوں پڑے ہیں اور فنونِ لطیفہ ادب، موسیقی، سائنس، ٹیکنالوجی بنجر کیوں ہو گئے تاریخ کے ایک طویل سفر کے بعد ہم اس منزل تک کیسے پہنچے؟ پاکستانی معاشرے کے اس انتشار، ٹوٹ پھوٹ اور زوال کے اسباب و وجوہات کیا ہیں؟پاکستان کے قیام کو 68 سال گزرنے کے بعد جب ہم اپنی تحریک آزادی کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ لوگوں نے آزادی سے جو توقعات وابستہ کیں وہ پوری نہ ہوئیں۔ہندوستان سے گورا راج ختم کر کے اُسے آزاد کرنے کے مطالبے پر برطانوی وزیراعظم سر ونسٹن چرچل نے کیا تاریخی جملے دہرائے تھے۔ ٭ اگر ہندوستان کو آزادی دے دی جائے تو جو حکومت ہے وہ بدمعاشوں، غنڈوں اور مفت خوروں کے ہاتھ جائیگی۔٭ اُنکے لیڈر نااہل ہوں گے جن کے دماغوں میں بھوسہ بھرا ہوگا۔ ٭ایک دن وہ آئے گا کہ یہ لوگ پانی اور ہوا پر بھی ٹیکس لگائیں گے۔
آج بھی وہ بزرگ اور بوڑھے جنہوں نے اپنی زندگی کا کچھ حصہ انگریزی حکومت میں گزارا ہے اس کو ترجیح دیتے ہوئے موجودہ حکومتوں سے نالاں نظر آتے ہیں اس سوچ کو غلط غلامانہ ذہنیت قرار دے کر رَد کر دینا کافی نہیں اسکے پس منظر میں یہ تلخ حقیقت کارفرما ہے کہ آج بھی عام لوگ اپنے ہی حکمرانوں کے ہاتھوں یہ سب ذلتیں اسی طرح برداشت کر رہے ہیں جو انہوں نے انگریزوں کے ہاتھوں برداشت کیں تھیں اگر ان میں اور انگریز حکمران میں فرق ہے تو یہ کہ ہمارے حکمران انصاف، ایمانداری اور قانون کے احترام سے بھی عاری ہیں۔ پاکستان آج بھی ’’فلاحی مملکت‘‘ کی بجائے سکیورٹی اسٹیٹ ہے۔ معاشرہ میں اس وقت تک لوگوں میں توانائی اور جاں رہتی ہے جب تک انہیں امید ہو کہ تبدیلی کے ذریعے حالات کو بدلا جاسکے گا لیکن جب بار بار کی تبدیلیاں حالات کو بدلنے میں ناکام ہو جائیں تو اس وقت معاشرہ میں بے حسی اور جمود طاری ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں لوگوں کیلئے ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وقت کیساتھ سمجھوتہ کرکے اپنی بقا کیلئے جدوجہد کی جائے۔ اس بقا کی جدوجہد میں لوگ بدعنوان، خوشامدی، جھیپو، منافقت اور بے عزتی کو اختیار کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے۔

ای پیپر-دی نیشن