محمد اختر چشتی اندرون ریلوے گیٹ پسرور ضلع سیالکوٹ)
یرا نام محمد اختر چشتی ہے۔ میں کمالپور چشتیاں تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ کا رہنے والا ہوں۔ پسرور شہر میں ننہیال ہونے کی وجہ سے اکثر پسرور میں ہی رہتا تھا۔ میری پیدائش 1930ء کی ہے۔ خدا کے فضل سے میری یادداشت بہت اچھی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ لاہور میں 1940ء میں مسلمانوں کا ایک بہت بڑا جلسہ ہوا تھا اور لوگ شہروں میں جلسے اور جلوس نکالتے تھے۔ مسلمانوں کے جلوسوں میں یہ نعرہ لگایا جاتا تھا۔ لے کے رہیں گے پاکستان۔ بن کے رہے گا پاکستان۔ 1946ء میں 16 سال کی عمر میں کراچی چلا گیا۔ تو وہاں بھی تحریک آزادی زوروں پر تھی۔ ہر طرف جلسے اور جلوس نکل رہے تھے۔ میں بھی ان جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کرتا تھا۔ مجھے اس وقت تک معلوم نہیں تھا کہ پاکستان کیسے بننا ہے اور کہاں بننا ہے۔ مجھ پر یہ راز اس وقت کھلا۔ جب14 اگست 1947ء کو پاکستان بن گیا۔ اور کراچی میں سارے سندھ کے ہندو ٹولیوں کی شکل میں آ کر کراچی میں اکٹھے ہو کر بحری جہاز کے ذریعے ممبئی جانے لگے اور مسلمان کھوکھراپار کے راستے کراچی آ کر آباد ہونے کیلئے ہندوئوں کی جائیدادوں پر قبضے کرنے لگے۔ بدقسمتی سے ابھی پاکستان وجود میں آئے صرف ایک سال ہوا تھا کہ بانیٔ پاکستان جناب حضرت قائداعظم محمد علی جناح کا انتقال ہو گیا۔ جن کے جنازے میں میں خود بھی شریک ہوا تھا۔