پاکستان کی حقیقی آزادی
قیام پاکستان سے پہلے اوربعد میں قائم ہونے والے ممالک حتی کے ریاستوں میں آزادی کی کیفیت اور اسی آزادی کے نتیجے میں ترقی کی حالت دیکھیں تو ہمیں اپنی آزادی کی اصلیت واضح نظر آجاتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں اور شاید بجا کہتے ہیں کہ ہم روز اول سے کسی بھی لحاظ سے آزاد نہیں رہے سوائے اس کے ہماری جغرافیائی سرحدوں کا قیام عمل میں آگیا جس سے یہ تو ہوا کہ دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک نمودار ہوا اور خطہ ارض پر پاکستان کے نام سے ایک نیا ملک متعارف ہوا۔ لیکن کیا اسی تعارف اور ظہور کو آزادی کہا جاسکتا ہے یا آزادی کے تقاضے کچھ اور ہیںکیا یہ سچ نہیں کہ غلط جغرافیائی تقسیم نے ہماری آزادی کو نامکمل رکھا جس کا آخری مرحلہ تقسیم پاکستان اور سقوط ڈھاکہ کی شکل میں رونما ہوا کیا یہ سچ نہیں کہ ارض کشمیر کو پہلے دن سے متنازعہ حیثیت میں ہمارے حوالے کرکے ہماری آزادی کو دائمی طور پر پریشان کردیا گیاکیا یہ سچ نہیں ہے کہ تحریک پاکستان کے بعد پاکستان کے اقتدار پر ایک خاص طبقہ یعنی جاگیر دار مسلط ہوگیا جو اب تک چلا آرہا ہے جس کا پاکستان کے اکثریت غریب اور متوسط عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے کیا یہ سچ نہیں ہے کہ انگریزوں کی وفا داری کے نتیجے میں انعام یافتہ طبقات نے ہی ملک کے تمام معاملات پر زبردستی قبضہ کرکے آزادی کی حیثیت واضح کردی کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جس انگریزی نظام سے آزادی کے نعرے لگے تھے وہی نظام ابھی تک اپنی اصل شکل میں موجود اور ائج ہے۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آزادی یافتہ ملک کے پہلے دس سال بمشکل گذرے تھے کہ بیرونی غلامی کے رسیا لوگوں نے آمریت کا آغاز کردیا اور موجودہ لمحات تک ملک میں آمریت نافذ ہونے کی افواہیں زوروں سے گردش میں ہیں کیا یہ سچ نہیں کہ ہمارے مذہبی رہنما آج بھی اسلام اور اسلامی تعلیمات قرآن و حدیث کی بجائے کسی نے کسی طرح بیرون پاکستان سے لیتے ہیں ۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے ماہرین اقتصادسود و حرام سے مبری اسلامی نظام معیشت پر بھروسہ کرنے اور اسے رائج کرنے کی بجائے دنیا میں موجود غیرحلال اور منافع کے نام پر سود دینے والے نظام کے حمایتی اور مروج ہیںکیا یہ سچ نہیں ہے کہ آزادی سے پہلے اور اب تک اسی آزاد ملک میں رہنے والے بہت سارے طبقات اسی ملک کے خلاف برسرپیکار ہیں اور ان میں بعض تو آزادی کے بھی خواہاں ہیں کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ڈرون اور خود کش حملوں کے آگے بے بس و مجبور ہیں کیا یہ سچ نہیں ہے کہ خارجہ پالیسی تشکیل دیتے وقت ہمیں اپنے قریبی ہمسایہ ممالک سے بھی تعلقات بنانے اور بگاڑنے کے لیے عالمی طاقتوں کی خواہشات کا خیال نہیں بلکہ ان پر عمل کرناپڑتا ہے چاہے ملک تباہی کے سمندر میں ہی کیوں نہ غرق ہو جائے کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اس آزاد ملک میں حکومتوں پر قبضے اور اقتدار کو طول دینے کے لیے بیرونی قوتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آزاد ملک میں آزاد رہنے کے خواہش مند لوگوں کو غلامی نصیب ہے اور بیرونی غلاموں کو آزادی کی ساری لذتیں میسر ہیں کیا یہ سچ نہیں کہ آزاد ملک میں اظہاررائے کی آزادی پر پابندی اور مادرپدر آزادی کی اجازت موجود ہے کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آزاد ملک میں مقتول اور ان کے ورثاء قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں جبکہ قاتل اور ان کے سرپرست آزادی سے دندنا رہے ہیںکیا یہ سچ نہیں ہے کہ اسی آزاد ملک میں توازن کی ظالمانہ اور غیر عادلانہ پالیسی کے تحت قاتل و کمزور‘ ظالم و مظلوم‘ نیک و بد ‘ شریف وبدمعاش‘ کافر کہنے اور کافر قرار دئیے جانے والے طبقات کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جارہا ہے