مسلم اُمہ اور اسرائیل
آج سے تقریباً تین ہزار سال پہلے تک موجودہ اسرائیل اور فلسطین کے علاقے میں دو طاقتور یہودی سلطنتیں قائم تھیں جو امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں زوال پذیر ہوئیں۔ یہودی یہاں سے بھاگ کر جہاں کہیں پناہ ملی چلے گئے۔ یہ لوگ 2800 سال بے وطن ہوکر پوری دنیا کے ممالک میں پھرتے رہے۔ اس دوران انہوں نے حضورکریمؐ کی زندگی اور ترقی یافتہ دنیا کا بغور مطالعہ کیا تو دو اصول اپنائے۔ اول: فوجی طاقت اور دوم: حصول علم خصوصاً سائنسی تحقیق۔ انہیں شدت سے احساس ہوا کہ اگر ان کے بازو میں طاقت ہوتی۔ اگر وہ اہل تلوار رہتے تو یوں انہیں وطن نہ چھوڑنا پڑتا۔ دوسرا مسلمانوں کے پیغمبر کے فرمان کے مطابق علم ہی وہ طاقت ہے جس سے وہ اپنا کھویا ہوا وقار واپس حاصل کر سکتے تھے۔ انیسویں صدی کے شروع میں انہیں اپنا ایک علیحدہ وطن قائم کرنے کا احساس ہوا۔ نظریں موجودہ اسرائیل کے علاقے پر جا ٹھہریں جو اسوقت فلسطین تھا۔ لہٰذا کچھ یہودی ہجرت کر کے فلسطین آئے اور فلسطینیوں سے زمینیں خرید کر یہاں آباد ہونا شروع ہوئے۔ جو زمینیں ان لوگوں نے خریدکیں وہ بنجر اور غیر آباد تھیں جنہیں آباد کرنے کے لئے 1870ء میں مکوہ جیوئش ایگریکلچر سکول قائم کیا گیا جس نے یہودیوں کی زرعی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ڈرپ ایریگشن سسٹم ایجاد کیا اور زمینیں آباد ہونا شروع ہو گئیں ۔فلسطین میں یہودیوں کی خوشحالی دیکھ کر مختلف ممالک سے مزید یہودی بھی آنا شروع ہو گئے۔1912ء میں ایک ٹیکنیکل انسٹیٹوٹ قائم کیا جو اسرائیل کے مشہور Technion انسٹیٹیوٹ کی بنیاد بنا۔ 1925ء میںہیبرو یونیورسٹی قائم ہوئی۔ اس دوران یہودیوں کے خلاف پوری دنیا میں نفرت کی تحریک چلی تو یہ لوگ چھپ چھپ کر اسرائیل آ گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ مختلف تعلیمی ادارے قائم کئے۔ اپنی آبادیوں کی حفاظت کیلئے ایک پرائیویٹ گارڈ تیار کی جسے’’ ہگانہ‘‘ کا نام دیا گیا۔
14 مئی 1948ء کو جب اسرائیل آزاد ہوا تو اسرائیل کے پہلے وزیراعظم بن گورین نے سب سے پہلا حکم ایک مضبوط فوج قائم کرنے کا دیا اور’’ ہگانہ‘‘ نئی اسرائیلی آرمی کی بنیاد بنی۔ دوسرا حکم یہ دیا کہ بیرونی دنیا سے ہتھیار خرید کر آزادی قائم نہیں رکھی جا سکتی لہٰذا جدید ہتھیاروں میں خود کفالت حاصل کرنا عظیم مقصد ٹھہرا۔ اس مقصد کیلئے Rafael Advanced Defence System کی بنیاد رکھی گئی جس کا موجودہ بجٹ 1.851 بلین ڈالرز ہے اور اسکی ایکسپورٹ تقریباً 180 ملین ڈالرز ہے۔ اسرائیل تمام جنگی ہتھیاروں میں خود کفیل ہے اور اسرائیلی جنگی ہتھیار پوری دنیا میں سب سے زیادہ معیاری اورقابل اعتماد سمجھے جاتے ہیں۔ امریکہ اور بہت سے مغربی ممالک بھی اپنے سیکورٹی مقاصد کیلئے بہت سے اسرائیلی ہتھیار درآمد کرتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں بھارت نے بھی اسرائیل سے تین بلین ڈالرز کے ہتھیار خریدے۔ اسوقت اسرائیل پوری دنیا میں اپنے GDP کا سب سے بڑا حصہ (دس فیصد) سائنسی ریسرچ اور ڈویلپمنٹ پر خرچ کرتا ہے۔ دنیا میں سب سے بڑی تیکنیکی ماہرین کی ٹیم (ٹیکنیشن، سائنسدان اور انجنئیرز) اسرائیل ہی کی ہے۔ ہر دس ہزار افراد کیلئے 140 تیکنیکی ماہرین موجود ہیں جبکہ امریکہ میں 85 اور جاپان میں 83 ماہر ین ہیں ۔ اسرائیل ٹیکنیکل مین پاور کے لحاظ سے دنیا میں نمبر ون ہے۔ اسوقت تقریباً 78 سائنسی تحقیقاتی ادارے کام کر رہے ہیںجن میں 13 ادارے صرف دفاع کیلئے مخصوص ہیں۔ اسرائیل کی چھ یونیورسٹیاں دنیا کی سو اہم یونیورسٹیوں میں شامل ہیں۔ لٹریسی ریٹ 99.5 فیصد ہے۔ اسرائیل دنیا میں دوسرا بڑا تعلیم یافتہ ملک ہے اور سائنسی ترقی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا اہم ملک ہے۔ اسرائیل پوری دنیا کی اہم تحقیقات اور اہم ایجادات پر مسلسل نظر رکھتا ہے۔ یونیورسٹیوں سے منسلک بیس اہم تحقیقاتی ادارے بیس مختلف ممالک کی سائنسی ترقی اور ایجادات پر نظر رکھتے ہے جس میں تمام اہم ممالک شامل ہیں۔ مسلمان ممالک سے ایران کی قم یونیورسٹیاں اور پاکستانی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ 1,05,000 طلبہ اسوقت مختلف لیولز پر ریسرچ میں مشغول ہیں۔ دنیا کی 50 اہم ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کئی اہم یونیورسٹیوں کے کیمپس بھی موجود ہیں۔ دنیا کی 64 ٹاپ کلاس ایجادات اسرائیل کی ملکیت ہیں۔ اسرائیل کی برآمدات 20 بلین ڈالرز سے زیادہ ہیں جس میں زیادہ تر برآمدات انڈسٹریل پراڈکٹس بمعہ الیکٹرانک سامان اور جنگی ہتھیار ہیں۔ اسرائیلی ساختہ ایجادات زندگی کے ہر شعبے میں ٹاپ کلاس مانی جاتیں ہیں۔ اسوقت 1800 ہائی ٹیک انڈسٹریز کام کر رہی ہیں۔ دو سو پچاس ملین ڈالرز ریسرچ پر خرچ ہو رہے ہیں۔ مقامی پروجیکٹس کے علاوہ 2000 ریسرچ پروجیکٹس بین الاقوامی کمپنیوں کی مدد سے مکمل کئے جا رہے ہیں۔ سائنسی تحقیق کی وجہ سے اسرائیل کے پاس ایک درجن نوبل انعام یافتہ افراد موجود ہیں جبکہ پوری مسلم اُمّہ میں کل 10 افراد کو نوبل انعام ملا جن میں 6 افراد کو امن کی کوششوں کی وجہ سے یہ انعام ملا۔ سائنسی تحقیق میں شاید ایک ہی انعام ہے ۔ اسرائیل کا تمام زیر زمین پانی استعمال کے قابل نہیں لہٰذا اسرائیلیوں نے اپنی ٹیکنالوجی کی مدد سے سمندری پانی قابل استعمال بنا کر زراعت اور روزمرہ استعمال میں لے آئے۔ بنجر زمینوں کو زرخیز بنانے کیلئے جنوبی افریقہ تک سے سمندری جہاز مٹی سے بھر کر لائے گئے جن سے بنجر زمینیں سونااگلنے لگیں۔
اسوقت کھجور اور مالٹے اسرائیل کی پہچان ہیں۔ اسرائیلیوں کو اپنی ان پروڈکٹس پر اتنا ناز ہے کہ اسرائیلی وزیر دفاع موشے دایان اپنے دور حکومت میں سرکاری مہمانوں کی تواضع تازہ مالٹوں کے رس سے کیا کرتا تھا۔ اسرائیل کے متعلق کہا جاتا ہے : Desert Oasis into Technolgical Oasis They turned اور ان حالات میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیوں کوئی اسرائیل کی مذمت نہیں کرتا۔ اسرائیل ایک معاشی اور فوجی طاقت ہے۔ اس لئے کوئی مسلمان مقابلہ کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔اب آئیںمسلم اُمّہ کی طرف،57 ممالک اور 1.5 ارب آبادی ہے لیکن کسی مسلمان ملک میں کوئی قابل ذکر سائنسی تحقیقاتی ادارہ موجود نہیں جو بین الاقوامی طور پر اپنی پہچان رکھتا ہو۔ کوئی بھی ملک عسکری یا معاشی طور پر بھی خودکفیل نہیں۔ فلسطین کی ترقی کا یہ عالم ہے کہ آج بھی گدھا ریڑھی پر سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ اردگرد کے عرب ممالک کو اپنی عیاشیوں سے ہی فرصت نہیں کہ وہ فوجی طاقت بننے کے انداز میں سوچیں۔معمولی چھوٹے ہتھیاروں کے سوا تمام اہم جنگی ہتھیار باہر سے لیتے ہیں۔ عالم اسلام کو سمجھنا چاہیے کہ کمزور اور بزدل اقوام کا کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ ظالم کا ہاتھ صرف طاقتور روک سکتا ہے اور یہ طاقت اسوقت پوری مسلم اُمّہ میں موجود نہیں ہے۔ یہاں یہ امر بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ دنیا میں کبھی کوئی مظلوم کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا۔ انسانی حقوق یا انسانی اصول سب فضول ڈھکوسلے ہیں۔ کشمیر ہو، فلسطین ہو ، بوسینا ہویا کوئی اور مسلم ملک دنیا کی کوئی بڑی طاقت انصاف پسندی کی بنیاد پر ہماری مدد کو نہ آتی ہے اور نہ آئے گی۔
مسلمانوں نے جو کچھ کھویا اپنی نااہلی، کاہلی اور ترک سیف سے کھویا۔ حضورؐ کی عملی زندگی سے دوری کی وجہ سے کھویا اور یوں بادشاہت سے گداگری پر آ گئے۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ عرب ممالک کے بیشتر امراء اور حکمران طبقہ کی بیگمات یہودی یا عیسائی ہیں۔ مشہور فلسطینی لیڈر مرحوم جناب یاسر عرفات کی زوجہ محترمہ کا تعلق بھی عیسائیت ہی سے تھا جس نے سلو پوازننگ سے فلسطین کے اس عظیم لیڈر کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ۔ میں اسرائیل کی وحشیانہ بربریت کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتا ہوں لیکن اس سے کہیں زیادہ پُرزور الفاظ میں اپنی جہالت اور نااہلی کی مذمت کرتا ہوں۔ جس دن ہم نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی۔ اہل سیف ہوئے حضور کریمؐ کی عملی زندگی پر عمل کیا اس دن کشمیر بھی آزاد ہو جائے گا اور فلسطین بھی۔ ورنہ امن اور انصاف کی بھیک مانگنا اور انسانی حقوق سے انصاف کی توقع رکھنا ہماری نااہلی کا دوسرا رُخ ہے۔