• news

بے باک صحافت کا ترجمان مجید نظامی

راقم کا صحافت سے تعلق پاکستان بننے سے پہلے قائداعظم کے DAWN اخبار سے ہے۔ جس کا پہلا ایڈیٹر ایک عیسائی جوزف پوتھین تھا۔ جناب الطاف حسین صاحب جن کے کالم شاہد کے نام سےSTATESMAN کلکتہ اخبار میں چھپتے تھے جو کہ قائداعظم صاحب کو بہت پسند آئے جس پر قائداعظم نے جناب الطاف حسین کو اپنے گھر پر بلایا اور ان کے کالموں کی تعریف کے ساتھ ساتھ DAWN اخبارکے چیف ایڈیٹر کی ذمہ داری سونپنے کی پیشکش کی جس کو الطاف حسین صاحب نے بڑی خوشی سے قبول کر لیا صحافت کے تعلق کی وجہ سے راقم کا الطاف حسین چیف ایڈیٹر صاحب کے گھر تک گہرے مراسم اور تعلقات تھے۔ نوائے وقت کے سچے سپاہی جناب مجید نظامی صاحب کی وجہ سے راقم کے کالموں کو بے حد پذیرائی ملی۔ جناب مجید نظامی صاحب کی وفات کے بعد راقم اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہا ہے۔جناب مجید نظامی صاحب کی صحافت اورکردارکے بارہ میں ایک چھوٹی سی مثال بتاناضروری سمجھتا ہوں۔ نواز شریف کے سابقہ دورِ حکومت میں جب ایٹم بم کے دھماکہ کی بات چل رہی تھی تو جناب مجید نظامی صاحب نے نواز شریف صاحب کو نہایت ہی خوبصورت مشورہ دیتے ہوئے لکھاکہ ’’اگر آپ نے اس وقت ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو ہو سکتا ہے کہ عوام آپ کی حکومت کا دھماکہ کر دیں۔‘‘ اس پر نواز شریف صاحب نے اُن کی بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے 28 مئی 1998ء کو چاغی میں ایٹمی دھماکہ کر کے جناب مجید نظامی صاحب کا سر فخرسے بلند کر دیا۔
صحافت کی قدر و منزلت کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ راقم نئی دہلی میں GHQ پوسٹنگ سے قبل ہندوستان کے ایک مسلمان قصبہ بہار شریف میں متعین تھا اور وہاں کے مسلمان رائیسوں سے واقفی اور گہری دوستی وغیرہ تھی اُن میں سے ایک دوست نے دہلی میں مجھے پیغام بھیجا کہ ہمارے گھرانے کے تین نوجوان میڑک پاس ہوئے ہیں لیکن ہندو سکول مسلمان طالب علموں کو اتنے نمبر نہیں دیتے کہ اُن کو آگے کالجوں میں داخلہ مل سکے۔ اس لئے گزارش ہے کہ آپ کوشش کر کے اِن تینوں بچوں کا علی گڑھ یونیورسٹی میں کسی کالج میں داخلہ کرا دیں۔ ہمیں یقین ہے علی گڑھ یونیورسٹی والے آپ کے اثر و وثوق کی وجہ سے انکار نہیں کر سکیں گے۔ یہ پورے ہندوستان میںایک ہی مسلمانوں کی واحد علی گڑھ یونیورسٹی تھی جہاں داخلہ کے لئے طالب علموں کو بہت سخت مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔ بہرحال دہلی میں نوابزادہ لیاقت علی خان فنانس منسٹر انٹرم گورنمنٹ اور آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری کے پرنسپل سیکرٹری ممتاز حسن جو کہ گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے سے میری بڑی گہری دوستی تھی۔ اس لئے میں نے ان سے بہار شریف کے تین مسلمان لڑکوں کے لئے وائس چانسلر ڈاکٹر سر ضیأالدین کے نام ایک سفارشی چٹھی حاصل کر لی اور علی گڑھ جانے کی تیاری شروع کر دی۔ جانے سے قبل میں نے قائداعظم کے مائوتھ پیس (MOUTH PEACE) مسلم لیگ کے اخبار ڈان کے چیف ایڈیٹر بنگالی نژاد الطاف حسین صاحب سے وائس چانسلر کے نام رقعہ حاصل کر لیا۔ چنا نچہ میں جب علی گڑھ پہنچا تو سردی کا موسم تھا ۔ وائس چانسلر ڈاکٹر سر ضیأالدین اپنے دفتر کی چھت پر دھوپ میں بیٹھے تھے کالج میں داخلہ کیلئے لڑکوں سے انٹرویو لے رہے تھے۔ جب قطار میں میری باری آئی تو میں نے اُن کو لیاقت علی خان صاحب کی سفارشی چٹھی پیش کی۔ وائس چانسلر ڈاکٹر سر ضیأالدین صاحب نے چٹھی بغیر پڑھے ہوئے جب لیاقت علی خان صاحب کا نام پڑھا تو انہوں نے فوراً ہی چھت سے نیچے پھینک دی، ساتھ ہی کہنے لگے کہ یہ سیاسی لوگ بغیر سوچے سمجھے سفارشی چٹھیاں بھیجتے رہتے ہیں۔ میں قدرتی طور پر اس بات سے بہت گھبرا یا لیکن جیب سے چیف ایڈیٹر اخبار ڈان الطاف حسین کا رقعہ نکال کر پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ اس رقعہ کو بھی دیکھ لیں رقعہ پکڑ کر وائس چانسلر ڈاکٹر سر ضیأالدین صاحب نے باقاعدہ پڑھا اور کہنے لگے کہ اس بارہ میں کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ وہاں موجود دو تین بہاری پروفیسر بھی میری حمایت میںکھڑے ہو گئے اور انہوں نے بھی عرض کیا کہ ان بچوں کو داخل کر لیں۔ چنانچہ وائس چانسلر ڈاکٹر سر ضیأالدین صاحب نے تینوں لڑکوں کو داخل کر لیا۔ جن میں سے ایک MBBS ڈاکٹر اور ایک ایگریکلچر انجینیئر ایم بی بی ایس پاکستان میں خدمت سرانجام دیتے رہے ہیں اس سے قارئین کو اندازہ ہو جائے گا کہ اگر صحافی سچا اور قابل اعتماد ہو تو سیاسی لوگوں سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن