• news

قومی یکجہتی (اندرونی و بیرونی محرکات)

واحد مسلمان ایٹمی ملک پاکستان کے داخلی خلفشار کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک کا تعلق تو ہماری اندرونی کمزوریوں سے ہی ہے جو بدقسمتی سے بہت گھمبیر اور دکھ دہ ہیں۔ کمزور حکمرانی، تعلیم کا فقدان، بے روزگاری اور سب سے بڑھ کر اشرافیہ کی ہمیشہ اقتدار میں رہنے کی انمٹ خواہش۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سیاسی اور خصوصاً غیر سیاسی حاکم اپنے آپ کو پاکستان کے لئے لازم و ملزوم سمجھتے ہوئے اپنے اقتدار کی لامتناہی طوالت کے لئے اپنی ساکھ اور ملک کے وقار کو بھی دائو پر لگانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف اپنے پہلے تین سالوں کی بہترین کارکردگی کے باوجود جب این آر او سے اپنے اقتدار کی طوالت کے سلطان کے متعلق اب سوچتے ہیں تو اپنی زبان دانتوں میں دبا کر اس پر بہت افسوس کرتے ہیں اور انہوں نے اس کا ذکر بھی کئی دفعہ کیا ہے۔ ان کو اب اس بات کا بھی شدت سے احساس ہے کہ جو سیاستدان اپنے نظرئیے، سیاسی وابستیاں اور سارے جمہوری اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی اقتدار پسندی کی انمٹ پیاس بجھانے کے لئے مختلف سیاسی جماعتیں چھوڑ کر ڈکٹیٹروں کے پائوں میں گرتے ہیں وہ کسی کے بھی وفادار نہیں ہوتے۔
جنرل مشرف کے اقتدار سے نکلتے ہی اقتدار کے یہ سوداگر اس سیاسی جماعت کی حکومت میں شامل ہو گئے جس نے جنرل مشرف کو اقتدار سے فارغ کیا اور اب وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ پنجرے میں پھنسے ہوئے بلے کو باہر نہ جانے دیا جائے۔ صرف اقتدار کی خاطر سیاسی قلابازیاں کھانے والے یہ سیاسی ہرجائی آمر کے وفادار ہیں نہ کسی سیاسی قائد کے سیاسی مداریوں کا یہ ٹولہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال ثابت کرنے میں دیر نہیں کرتا آپ اقتدار کا ٹکڑا دکھا کر ان سے جو مرضی ہے قلابازیاں لگوا لیں۔ اقتدار سے باہر ان کی حالت اس مچھلی کی سی ہو جاتی ہے جس کو سمندری تھپیڑے کئی دفعہ خشکی پر جا پھینکتے ہیں عمران خان نہایت دیانتداری سے اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ پچھلے انتخابات میں ان کی پارٹی پورے ملک میں سویپ کرے گی اور ان کو وزیراعظم بننے سے اب کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ مکمل اکثریت حاصل کرنے کے دعوے انہوں نے ٹی وی سکرین پر بار بار کئے بلکہ شرطیں لگانے پر بھی تیار تھے۔
 لیکن عوامی حلقوں اور سیاسی پنڈتوں کا خیال تھا کہ عمران کی پارٹی اگر قومی اسمبلی کے حلقوں میں 20 سے 25 نشستوں پر کامیاب ہو جائے تو یہ اچھی کارکردگی سمجھی جائے گی چونکہ تحریک انصاف ایک نئی جماعت ہونے کے ناطے اگر پارلیمنٹ میں اس BANG سے داخل ہوتی ہے تو پاکستان کی سیاست کے لئے یہ ایک اچھا شگون ہو گا لیکن عمران خان اب ان نتائج سے مطمئن نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سب سے سینئر اور بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے چند لاکھ اور ان کی پارٹی کے ڈیڑھ کروڑ ووٹ ہونے چاہئیں تھے اور اب ایک سال کے بعد وہ ایک لانگ مارچ کرکے حکومت کا تختہ الٹنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس بے تابی کی بڑی وجہ دہشت گردی کے خلاف حکومت کی موثر حکمت عملی اور ECONOMIC REVIVAL کی ابتدا ہے جس کا اقتدار مسلم لیگ ن کے قائدین بھی کر رہے ہیں۔ اگلے تین چار سالوں میں اگر پاکستان کا سفینہ بھنور سے نکل کر ساحل کے قریب پہنچ گیا تو موجودہ حکمران سیاسی جماعت اگلا انتخاب آسانی سے جیت جائے گی اس لئے اس کو غیر آئینی طور پر ختم کرنا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ موجودہ حکومت کوئی فرشتوں کی حکومت نہیں۔ ان کے بہت سارے ACTION اور INACTIONs پر عوام اور اہل دانش کے کافی تحفظات ہیں میں ان کا تذکرہ ارباب اختیار سے زبانی اور لکھ کر بھی کرتا رہتا ہوں لیکن ایک بات پر مجھے ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ میاں نواز شریف کی قیادت میں اس حکومت کی پاکستان کو معاشی مشکلات سے چھٹکارا دلوانے کی ایک مضبوط POLITICAL WILL ہے اور میرا یہ ایمان ہے کہ اگر ان کو کام کرنے کا موقعہ ملا تو یہ قوم کی دعائوں کے ساتھ کامیاب بھی ہو جائیں گے۔ میں عمران خان کو بھی حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ایک انسان سمجھتا ہوں جس کے اندر کچھ کر گزرنے کی بہت مضبوط خواہش موجود ہے۔ میری ان سے استدعا ہو گی کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو سڑکوں پر ضائع کرنے کی بجائے پارلیمنٹ کے فلور کو استعمال کریں اور اپنی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کا فائدہ اٹھا کر خیبرپی کے کے صوبے کو ماڈل صوبہ بنا دیں میں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ ایسی صورت میں ان کے وزارت عظمیٰ کے حصول کے خواب کی تعبیر سامنے آ سکتی ہے۔
چودھری شجاعت ایک قابل احترام سیاسی قائد ہیں کون نہیں جانتا کہ وہ مسلم لیگ ن میں شمولیت کے لئے بے تاب تھے اب وہ طاہرالقادری کی بغل میں بیٹھ کر یہ سننا بھی گوارا کر لیتے ہیں کہ حکومت کا تختہ الٹے بغیر اسلام آباد سے واپس لوٹنے والوں کو قتل کر دو اور ان کے ماتھے پر جوں تک نہیں رینگتی بلکہ احتجاج کی بجائے ان کا نعرہ ہے کہ ’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ آج اگر کوئی فوجی مارشل لا آ جاتا ہے تو پاکستان کے یہ شیدائی اور جمہوری اصولوں کے علمبردار ان امیدواروں کی صف میں سب سے آگے کھڑے ہوں گے جو صوبائی وزیراعلی نائب وزیراعظم یا وزیراعظم بننے کے متمنی ہیں پاکستان کے سیاسی اکھاڑے کی ان بے اصولیوں اور قباحتوں سے جمہوریت پٹڑی سے اترتی رہی ہے اور کئی دفعہ بادل نخواستہ بھی غیر سیاسی قوتوں کو آگے آنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین خدا کے لئے اقتدار سے باہر رہ کر بھی پاکستان کی خدمت کا درس سیکھیں۔ قارئین پاکستان کے داخلی خلفشار کے سیاسی پہلوئوں پر روشنی ڈالنے کے بعد یہ سمجھنا بھی بہت ضروری ہے کہ اس اندرونی بدامنی کو ہوا دینے کے لئے بیرونی قوتیں بھی سرگرم عمل ہیں۔ مجھے پکا یقین ہے کہ ہمارے ملکی سیاسی کھلاڑیوں کو اس پہلو کا مکمل ادراک نہیں اور وہ لاعلمی میں ان قوتوں کے مذموم عزائم کی تکمیل میں ہاتھ بٹا رہے ہیں۔
 اس سلسلے میں STRATEGIC لیول پر پاکستان دشمن طاقتوں کے چند بڑے اہداف کچھ یوں ہیں۔ سب سے پہلا تو یہ کہ دہشت گردی کے خلاف افواج پاکستان کی بڑی ہی کامیاب یلغار اور حکومت کی کائونٹر ٹیررازم کی پالیسی کو ہر صورت کامیاب نہ ہونے دیا جائے چونکہ اس کامیابی کے بعد پاکستان کشمیریوں اور فلسطینیوں کے حقوق کی بین الاقوامی سطح پر موثر طریقے سے بات کر سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان کے انرجی سیکٹر میں تقریباً 35 ارب ڈالرز کی بیرونی امداد کی حوصلہ شکنی ہو اور پاکستان کی معاشی عمل کی بحالی کا کام آگے نہ بڑھنے پائے۔ تیسرا یہ کہ پاکستان میں عراق، شام، لیبیا اور افغانستان جیسے حالات پیدا کرکے ان کی ایٹمی صلاحیت کو بین الاقوامی نگرانی میں لے لیا جائے۔ چوتھا یہ کہ اگر ہو سکے تو پاکستان کی BALKANISATION یا حصے بخرے کئے جائیں تاکہ پختونستان، سندھو دیش، بلوچستان اور پنجاب الگ الگ کمزور اور تابعدار ریاستیں بن جائیں اور آخری یہ کہ پاکستان کی بہادر اور پیشہ ور لڑاکا فوج کو ملک کے اندرونی مسائل میں الٹا پھنسایا جائے کہ یہ وہ جغرافیائی سرحدوں کے دفاع کے قابل نہ رہے۔ دشمنوں کی ان مذموم ارادوں کو خاک میں ملانے کے لئے ہم سب کو اتحاد یکجہتی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے سیسہ پلائی دیوار بن جانا چاہئیے

ای پیپر-دی نیشن