• news

عمران گوجرانوالہ میں آٹھ گھنٹے کیوں ٹھہرے؟

لاہور میں تو تحریک انصاف کے مارچ پر پتھرائو نہیں ہوا تھا۔ گوجرانوالہ میں یہ کیا ہوا۔ خرم دستگیر کو مبارک ہو۔ ان کے چھوٹے وزیر بننے کے بعد جو جشن اور استقبال ہوا تو فائرنگ ہوئی۔ خرم دستگیر بہت خوش و خرم ہوئے۔ ان کے والد غلام دستگیر خان کے لئے نرم گوشہ ہے تو وہاں ان کے جانشین بیٹے کے دوستوں نے اور ایک ایم پی اے بٹ صاحب کے بھائی پومی بٹ نے پولیس کی سرپرستی میں فائرنگ کی۔ اسے یقین ہے کہ گلو بٹ کی ضمانت ہو چکی ہے تو میری بھی ہو جائے گی۔ گلو بٹ کی ضمانت 13اگست کو ہوئی ہے۔ کسی بٹ صاحب کو آج کل کچھ نہیں ہو سکتا۔ خواجہ سعد رفیق نے پتھرائو  والوں کا دفاع کیوں کیا جبکہ وزیر دفاع تو خواجہ آصف ہیں۔ خواجے کا یار خواجہ۔ خواجے کا گواہ ڈڈو۔ گوجرانوالہ میں ڈڈو لوگوں کے ہاتھ میں پتھر تھے اور یہ بات قطعاً مناسب نہ تھی۔ ن لیگ اور اس کی قیادت     تصادم کے حق میں نہیں ہے۔ شہباز شریف نے جیسے تیسے ریلیف دیا اور قافلے روانہ ہوئے تو ساری ’’کیتی کرائی‘‘ پر مٹی ڈالنے والے کون ہیں۔ مٹی پائو اور مٹی ڈالو میں فرق ہے۔ خواجہ سعد رفیق دوست ہیں  مگر ان کی بے تحاشا کارکردگی کیا اس لئے ہے کہ چار حلقوں میں ایک حلقہ ان کا بھی ہے۔ کیا پتھرائو گوجرانوالہ میں فرشتوں نے کیا ہے۔ یہ وہ فرشتے ہیں جو ووٹ بھی ڈالتے ہیں۔ 
ایک بات یہ بھی ہے کہ عمران خان نے گوجرانوالہ میں آٹھ گھنٹے کیوں لگائے۔ کیا انہیں امید تھی کہ ابھی جنرل راحیل شریف کا فون آئے گا کہ آپ کے مطالبات مان لئے گئے ہیں۔ نواز شریف عمران خان سے اس معاملے میں کچھ آگے ہے۔ شیخ رشید بھی قادری صاحب اور چودھری صاحبان سے الگ ہو کر عمران خان کے کنٹینر میں جا بیٹھا اور پہلی صف میں آنے کے لئے کارروائی کی۔ ایک جملہ آیا جس سے شیخ صاحب کچھ شرمندہ ہوئے مگر پھر سنبھل گئے۔ ’’جمعہ جنج نال‘‘ مگر شیخ صاحب تو ’’جمعمراتی‘‘ ہیں اور 14اگست بھی جمعرات تھی۔ تحریک انصاف والوں نے اس موقع پر تو نہیں بلایا تھا مگر وہ تو ’’مان نہ مان میں تیرا مہمان ‘‘ بلکہ مہمان اداکار۔ وہ ہر جگہ مہمان خصوصی بن جاتے ہیں۔ ان کی ہمت ہے کہ ایک سیٹ کے بل بوتے پر بڑے سیاست دان بننے کی کوشش میں کامیاب ہوئے ہیں۔ 6بار وزیر رہنے والا ’’باضمیر‘‘ سیاستدان کہتا ہے کہ سب سیاستدان جرنیلوں کی پیداوار ہیں تو ٹھیک کہتا ہے۔ ایک محاورہ اور بھی ’’جنج پرائی تے احمق نچے‘‘ مگر عمران والے کنٹینر پر والہانہ ناچنے والا شخص محمودالرشید تھا۔ جب بھی کیمرہ ان پر پڑتا تو دیوانہ وار ناچنا شروع کر دیتے۔ نجانے ان کو کس بات کی خوشی ہے۔ وہ میرا دوست ہے اور شیخ رشید سٹوڈنٹ ہے۔ سٹوڈنٹ تو پرویز رشید بھی ہے۔ اس نے پی ٹی وی پر میرے لئے پابندی لگا دی ہے جب سے نواز شریف کی حکومت آئی ہے۔ یہی حال ہے میرے لئے ان پروگراموں کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ میں نے اس وقت یہ پروگرام کئے جب کوئی نجی ٹی وی چینل نہ تھا۔
شیخ صاحب نے کہا کہ میں فائرنگ اور پتھرائو کرنے والوں کو پہچان سکتا ہوں۔ ان میں پولیس والے کون ہیں اور خرم دستگیر کے کون آدمی ہیں۔ یہ ہے تو یہ ن لیگ کی قیادت سے دشمنی ہے۔ ماڈل ٹائون منہاج سیکرٹریٹ میں سیدھی گولیاں مارنے والے کیا شریف برادران کے دوست ہیں۔ یہ نمبر بنانے والے لوگ دو نمبر لوگ ہوتے ہیں۔ مگر یہی لوگ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے کام آتے ہیں۔
زمان پارک سے پنجاب اسمبلی تک پانچ جیب کتروں کو پکڑ لیا گیا۔ ان کا جو ایجنڈا ہے وہی سیاستدانوں کا ایجنڈا ہے۔ لوگوں کی جیب پر ہاتھ صاف کریں یا قوم کے خزانے پر ہاتھ ڈالیں بات ایک ہے۔ سنا ہے جیب کتروں نے وہاں عمران خان کے حق میں خوب نعرے بازی کی۔ ایک ایم این اے مجاہد خان کے 50 ہزار نکل گئے۔ اس موقع پر جیب میں اتنے پیسے رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ پچاس کروڑ کے مالک کے لئے یہ رقم بڑی معمولی ہے۔
غلام مصطفی کھر بھی ڈاکٹر طاہر قادری کی مقبولیت کو کیش کرانے آ گئے ہیں۔ سنا ہے وہ خفیہ اداروں کے کھلم کھلا آدمی ہیں۔ اس نے اپنے محسن بھٹو صاحب کے ساتھ کیا کیا مگر بے نظیر بھٹو نے اسے اپنا وزیر کیوں بنایا؟ پچھلے دنوںمیں وہ نواز شریف کے ساتھ ساتھ تھا اور واہگہ بارڈر کے آس پاس ایسی جگہ بنانے کے ارادے میں تھا جس کا زیادہ فائدہ بھارت کو ہوتا۔ نواز شریف ان دنوں کھر صاحب پر بہت نہال تھے۔
جب کارکنوں نے عمران کے کنٹینر کا دروازہ توڑ دیا تو شاہ محمود قریشی بہت برہم ہوئے۔ وہ خود بھی اسی کنٹینر کے رہائشی ہیں۔ کارکن شاہ محمود قریشی کے خلاف نعرے بازی کرنے لگے۔ تحریک انصاف کے جنونی لوگ قریشی صاحب کو پسند نہیں کرتے۔ لوگ بہرحال جاوید ہاشمی کو بہت پسند کرتے ہیں۔ مگر شاہ محمود قریشی جاوید ہاشمی کے خلاف سازش کرتے رہتے ہیں۔ ن لیگ میں چودھری نثار کو تو جاوید ہاشمی کے خلاف خواہ مخواہ بدنام کیا گیا۔ تحریک انصاف میں شاہ محمود قریشی جاوید ہاشمی کو بالعموم اور عمران خان کو بالخصوص خراب کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ یہ آدمی ایک دن انشااللہ عمران خان کو لے بیٹھے گا۔ کہتے ہیں کہ وہ کسی پلاننگ کے تحت تحریک انصاف میں بھی بھیجا گیا ہے۔ اور یہ آزادی مارچ آخری حملہ ہے۔ کہتے ہیںپیپلز پارٹی جو نواز شریف کے ساتھ کرنے میں اتنی کامیاب نہیں ہوئی تھی وہ عمران خان نے کر دکھایا۔ اس میں نواز شریف کے اپنے فیصلے بھی شامل ہیں مگر شاہ محمود قریشی جیسے آدمی عمران خان کو اس میدان میں بھی کامیاب ہونے دیں گے؟ شاہ محمود قریشی کی اصل جماعت پیپلز پارٹی ہے مگر اصلی جماعت مسلم لیگ ن ہے۔ یہی حال اعتزاز احسن کا ہے۔ وہ نواز شریف کا بہت دوست ہے مگر اپنی اہلیہ کو ممبر اسمبلی نہیں بنوا سکا ہے۔ اعتزاز کے لئے میرے دل میں کچھ بات ہے۔ وہ ذوق و شوق کا تخلیقی صفات والا آدمی ہے مگر قریشی سیاست میں بہت ہیں۔ جاوید ہاشمی تحریک انصاف میں آیا تھا تو شاہ محمود قریشی کو چھٹی کرا دی تھی۔
سنا ہے عمران کی بہنیں بھی مارچ میں ہیں مگر بہنوئی کیوں نہیں ہیں۔ ایک بہنوئی تو اس کا کزن ہے۔ حفیظ اللہ۔ جاوید ہاشمی اور اپنے بھائی انعام اللہ خان کو لایا ہے۔ جبکہ بڑا بھائی سعید اللہ خان اس فیصلے کے خلاف تھا۔ کیا ہارون الرشید نے اچھے زمانوں میں یہ حدیث عمران کو نہیں سنائی تھی ’’تم میں وہ اچھا جو اپنے گھر والوں کے لئے اچھا۔‘‘
عمران کے دونوں بیٹے بھی آزادی مارچ میں عمران کے خاص کنٹینر میں موجود ہیں۔ تو پھر یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کے آئندہ قائد قاسم خان ہوں گے۔ جمائما کے تربیت یافتہ نوجوان کے معاملے میں حمزہ شہباز مونس الٰہی مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کیا حقیقت رکھتے ہیں۔ اس کے لئے موروثی سیاست کے حق میں فوزیہ قصوری اور ناز فاطمہ کی باتیں زبان زد عام ہو جائیں گی۔ اسد عمر جنرل عمر کے بیٹے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی مفتی محمود کے بیٹے ہیں۔ اسفند یار ولی خان کے صاحبزادے ہیں۔ مگر ’’صدر‘‘ زرداری نے موروثی سیاست قائم  رکھی اور اس کا رخ موڑ دیا۔ دامادی سیاست… تو یہ بھی تو سوچیں کہ عمران خان کن کا داماد ہے؟ آزادی مارچ کے پیچھے کن کا ہاتھ ہے۔ میرے دوست آغا مشہود شورش کاشمیری نے کہا کہ ہم کیا قوم ہیں کہ آزادی کے دن آزادی مانگتے ہیں؟

ای پیپر-دی نیشن