اسلام آباد میں بارش اور سازش
اسلام آباد میں دونوں تحریکوں کا موازنہ شروع ہو گیا ہے جسے کچھ کچھ مقابلہ بھی کہنا چاہئے۔ عوامی تحریک انصاف، ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان دونوں کا ایجنڈا ایک ہے مگر دونوں کے کارکن مانتے نہیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ قادری صاحب کے ساتھ خواتین و حضرات زیادہ ہیں۔ کمٹڈ اور جانثار۔ پہلے بھی قادری صاحب واپس آ گئے تھے مگر ان کے جانثار اور مریدان خواتین و حضرات ان کے ساتھ تھے۔ عمران خان کے ساتھ ایسا کچھ ہوا تو لوگ مایوس ہوں گے۔ مایوس تو وہ اب بھی ہیں۔ جذبے والے لوگ دونوں طرف
ہوں گے مگر زیادہ جذبے کے ساتھ لوگ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ ہیں۔ ایک ساتھ دونوں کی تحریک میں فائدہ بھی شاید ہو۔ نقصان زیادہ ہے۔ قادری صاحب نے ایک ساتھ مارچ کرنے کے لئے اعلان کیا مگر عمران ڈر گیا۔ شیخ رشید یکجہتی کے حق میں کوشش کرتا رہا مگر عمران ون مین شو اور سولو فلائٹ کا آدمی ہے۔ وہ کسی دوسرے کو اپنے ساتھ برداشت نہیں کرتا۔ وزیراعظم ایک ہی ہوتا ہے اور عمران خان کب سے وزیراعظم ہے جبکہ قادری صاحب اس کی ’’وزیراعظمی‘‘ پر نظر نہیں رکھتے مگر؟ شیخ دونوں طرف تھے۔ شکر ہے کہ چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی عمران کے ساتھ نہیں تھے۔ ق لیگ یہاں بہت متحرک نظر آئی۔ ہر جگہ ق لیگ کے کارکن تھے۔ گجرات میں میلے کا سماں مارچ کے اوقات میں رہا۔ وحدت المسلمین اس حوالے سے سرگرم رہی۔ انہوں نے قادری صاحب سے بہت تعاون کیا۔ سواد اعظم تو یہی لوگ ہیں۔ قادری صاحب اور صاحبزادہ حامد رضا۔ سنا ہے مارچ میں بھی آدھے سے زیادہ وحدت المسلمین کے لوگ تھے مگر سب ایک تھے۔
دو ہی بڑے شہر بچ گئے تھے۔ لاہور اور اسلام آباد۔ انہیں بھی تباہ کیا جا رہا ہے۔ کراچی، کوئٹہ اور بلوچستان تو پہلے ہی کشیدہ حالات میں تھے۔ اب بیرونی قوتوں کی نظر ان دو اہم شہروں پر ہے۔ ان دو شہروں کو چھیڑے بغیر پاکستان کو تیونس لیبیا اور شام بنانے میں کامیابی ممکن نہیں تھی مگر پاکستانی عوام پاک فوج اور آئی ایس آئی اس سازش کو بھی کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ جنرل راحیل شریف اور جنرل ظہیر الاسلام صورتحال پر کڑی رکھے ہوئے ہوں گے۔ انہوں نے یوم آزادی کی ساری تقریبات میں شرکت کر کے بتا دیا کہ وہ پاکستان کی آزادی کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔ پاکستان کے لئے وہ بیرونی دنیا ہے۔ ٹکرانے اور اندرونی دنیا سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ اللہ پاکستان کی خیر کرے۔ پاکستانی سیاست تو یونہی چلتی رہے گی۔
گوجرانوالہ میں آزادی مارچ کے دوران جو کچھ ہوا اس کے لئے شہباز شریف نے مذمت کی اور امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کی ذمہ داری پوری کی مگر پرویز رشید کا بیان غیر سیاسی تھا جس میں انہوں نے تحریک انصاف کو مورد الزام ٹھہرایا اور ان کے کارکنوں کے رویے کو غیراخلاقی قرار دیا۔ اللہ ایسے دوستوں سے نواز شریف کو بچائے۔
عمران خان نے نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا تو پہلے خود قومی اسمبلی سے تو استعفیٰ دیتا۔ اس نے اب تک خیبر پختون خواہ کی حکومت بھی قبضے میں رکھی ہوئی ہے۔ پرویز خٹک پورے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ آزادی مارچ میں اسلام آباد آ کے شامل ہوئے ہیں۔ پرویز خٹک رات ڈھلتے ہی خیبر ہائوس جا کے سو رہے۔ پشاور کے تحریکیوں نے احتجاج کیا ہے۔ عمران کی تقریر کے دوران پرویز خٹک کنٹینر میں چھپ کے بیٹھے رہے۔ تحریک انصاف کے ممبران پارلیمنٹ لاجز میں آرام کرنے چلے گئے۔ عمران خان کو بنی گالہ محل میں نہیں جانا چاہئے تھا۔ کچھ لوگ سرینہ ہوٹل میں چلے گئے مگر کئی گھنٹے پیدل چلنے والے جنونی کارکن بارش کے دوران کھلی سڑکوں پر مارے مارے پھرتے رہے۔ کیا سب سیاستدان ایک جیسے ہیں۔ نواز شریف عمران خان کے لئے استعفیٰ دے رہے ہیں۔ اپنے حکمرانوں کے حق میں نہیں مگر عمران بھی تو اپنا حکمران ہو گا۔ لوگ فتح کا نشان بنا رہے تھے مگر ان مقررین میں صرف ذلت اور اذیت ہے۔ ایم این اے مراد سعید ایک ساتھی کی گود میں سر رکھے سستاتے رہے۔ شیریں مزاری عندلیب عباس کی گود میں سر رکھے سوتی رہی۔ سنا ہے پٹھانوں نے پرویز خٹک سے کہا کہ ہمیں کھانا ملے نہ ملے نسوار ضرور ملے۔ ایک پٹھان کو سعودی عرب میں شرطے (سپاہی) نے نسوار کی وجہ سے منع کیا اور عربی زبان ڈانٹا تو پٹھان خوشی سے پھول گیا کہ خوچہ آج پتہ چلا ہماری نسوار کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے۔ سب سے بڑا جلوس پشاور کے ہمسایہ شہر ٹیکسلا سے تحریک انصاف کے ایم این اے غلام سرور نے آزادی مارچ میں شامل کیا۔ اٹک سے اکبر تنولی کا جلوس بھی اچھا خاصا تھا۔ پرویز خٹک تو چند گاڑیاں لے کر آزادی مارچ کر رہا تھا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایسا جم غفیر کبھی نہیں دیکھا۔ یہی بات اس نے کہی تھی جب بے نظیر بھٹو محمد خان جونیجو کے زمانے میں لاہور آئی تھی۔ بھٹو کے جلسے بھی کم نہ تھے۔ مادر ملت کے جلوس اس سے بہت بڑے تھے۔ قادری صاحب کا انقلاب مارچ عمران کے آزادی مارچ کے ساتھ مل کر جاتا تو شاید بات بن جاتی مگر عمران کی رعونت اور خود پسندی آئے آئی۔ شیخ رشید کی نظر ان باتوں پر تھی مگر اسے گاڑی سے عمران نے نیچے اتار دیا۔ وہ میڈیا کی کسی گاڑی میں اسلام آباد پہنچا کسی نے عمران کو ڈرا دیا کہ پنڈال اسلام آباد میں خالی پڑا ہے۔ مگر وہاں خواتین و حضرات اور بچے تھے۔ وہاں شیخ رشید اور جاوید ہاشمی کی تقریریں بہت زبردست تھیں۔ شاہ محمود قریشی لاڈلے انداز میں بچوں کی طرح بولتا ہے۔ شیخ رشید سیلف میڈ آدمی ہے۔ سٹوڈنٹس لیڈر ہے۔ اب تک اس کا کیرئر شاندار ہے۔ وہ پیر فقیر جاگیردار سرمایہ نہیں ہے۔ لوگوں میں سے ہے اور اب بھی انہیں میں رہتا ہے۔ اس نے گارڈن کالج پنڈی میں پرویز رشید کو شکست فاش دی تھی۔ اس کے بدلے میں آج وہ وزیر شذیر ہے۔ اس کے پاس وہی وزارت ہے جو شیخ صاحب سے مخصوص سمجھی جاتی ہے۔ شیخ صاحب نے خفا ہو کے کسی کے پروگرام پی ٹی وی پر بند نہ کئے تھے۔ پرویز رشید نے یہ کام بھی کر دیا ہے۔
جاوید ہاشمی کی گاڑی پر گوجرانوالہ کے متوالوں نے پتھرائو نہ کیا۔ وہ عمران خان کے کنٹینر پر پتھرائو ہونے کے بعد باہر آیا اور لوگوں کو منع کیا۔ وہ سب سر جھکا کر چلے گئے۔ اس کا خیال آپ بھی ن لیگ میں کیا جاتا ہے مگر اس نے اسلام آباد میں کہا وزیراعظم عمران خان ہے۔ اس مارچ کے بعد وہ وزیراعظم بنا تو لوگ اسٹیبلشمنٹ پر شک کریں گے۔ جاوید ہاشمی نے نواز شریف کو لیڈر کہا تھا جو نہیں کہنا چاہئے تھا مگر اس کے بعد جو عمران نے جاوید ہاشمی کو کہا وہ بھی نہیں کہنا چاہئے تھا۔
جب عمران کا قافلہ اسلام آباد میں داخل ہوا تو اس کی گاڑی شاہ محمود قریشی چلا رہا تھا۔ جب جسٹس افتخار کی گاڑی اعتزاز احسن اور بھٹو صاحب کی گاڑی غلام مصطفی کھر چلاتا تھا۔ ان ڈرائیوروں نے اپنے مالکوں کے ساتھ کیا کیا مگر جو شاہ محمود قریشی عمران خان کے ساتھ کرے گا پورا پاکستان دیکھے گا؟ وہ نجانے یہ گاڑی کہاں جا کے مارنا چاہتا ہے۔ آزادی مارچ کی کسی گاڑی نے ٹول ٹیکس نہیں دیا۔ یہ غیر قانونی حرکت ہے۔ سب ادائیگی عمران کو کرنا چاہئے۔
جو کچھ اب تک ہوا ہے یہ بیرونی آرکیٹیکٹ کے سکرپٹ کے مطابق ہے۔ یہ بات حافظ حسین احمد نے کہی ہے اس کا اختتام بھی سکرپٹ کے مطابق ہی ہو گا۔ اللہ کسی انجام سے بچائے۔ جلوے والے اور حلوے والے… باراتی اور خیراتی۔ حافظ صاحب نے مزید کہا کہ نواز شریف نے معاملے کے حل کے لئے کچھ نہیں کیا۔ کچھ وزیر شذیر اور پرویز رشید صرف غلط بیانات دیتے رہے ہیں۔ مگر جمہوریت کے لئے حلیف جماعتوں نے نواز شریف کا ساتھ دیا ہے۔
اس میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ سراج صاحب انہی کے آدمی ہیں۔ جن کے آدمی عمران خان ہیں اور نواز شریف ہیں۔ دونوں سراج صاحب پر انحصار کر رہے ہیں۔ اس احتجاج کے موسم میں لیاقت بلوچ کی خدمات قابل ذکر ہیں اور گورنر پنجاب چودھری سرور کی دردمندی اور ہنرمندی بہت قابل تعریف ہے۔ وہ حکومت کو بھی بچانا چاہتے ہیں اور مارچ کرنے والے تحریکیوں کو بھی بچانا چاہتے ہیں۔ یہ اصل میں پاکستان دوستی کا ایک مظاہرہ ہے۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے۔ بہت سے کام تھے جو نواز شریف کو پہلے کرنا چاہئے تھے۔ ایک خبر ہے کہ چار وزیروں کی قربانی دی جانے والی ہے۔ چار حلقوں کی قربانی پہلے دے دی جاتی تو یہ نوبت نہ آتی۔ نواز شریف کہتے کہ یہ چار حلقے بغیر کسی تحقیق کے عمران کے حوالے کر دیے جاتے تو بات ختم ہو جاتی۔ کس نے مشورہ دیا تھا کہ متنازع حلقے والے ایاز صادق کو سپیکر اسمبلی بنا دیا جائے وہ کہتا ہے کہ جب عمران مجھے مسٹر سپیکر سر کہتا ہے تو میرے پیسے پورے ہو جاتے ہیں۔ کوئی ایاز صادق سے پوچھے کہ اس کام پر اس نے کتنے پیسے لگائے تھے۔ سنا ہے ڈاکٹر اسد اسلم اس کے مشیر ہیں۔
جمائما نے عمران کے کنٹینر پر پتھرائو کے بعد پریشانی کا اظہار کیا ہے کہ ان کے بچے بھی عمران کے ساتھ تھے۔ یہ پریشانی اپنے بچوں کے لئے یا اپنے بچوں کے باپ کے لئے ہے؟ آج بھی ان کے نام کے ساتھ ’’جمائما خان‘‘ لکھا جاتا ہے۔
آخر میں مجھے اپنی ایک ذاتی پریشانی کا ذکر کرنا ہے۔ میانوالی کا فخر نامور اور مقبول ترین گلوکار عطااللہ خان نیازی عیسیٰ خیلوی کو عمران کے قصیدے گاتے ہوئے سنتا ہوں تو شرم سے ڈوب جاتا ہوں۔ محبوب کے لئے گانے والے کو معلوم ہو جائے گا کہ خودپسند متکبر اور اپنے لئے زندہ رہنے والا کبھی محبوب لیڈر نہیں ہوتا۔ صرف محبوب لیڈر لگتا ہے۔ جو سمجھا ہو کہ وہ صرف محبت کئے جانے کے لئے پیدا ہوا ہے۔ وہ کبھی کسی سے محبت نہیں کر سکتا۔ اہل وطن اس سے بہت مایوس ہوں گے۔ ایک سیاستدان کے لئے اپنی آواز کو نیلام کرنا اچھی بات نہیں۔ لالہ ایک بار عمران کے غیردوستانہ غیرانسانی غیراخلاقی رویے سے خفا ہو کر بہت غمزہ اور اداس ہوا تھا۔ جو اپنے گھر والوں کے لئے اچھا نہیں ہے وہ اپنے وطن والوں کے لئے کب اچھا ہو گا۔