• news

عوام سول نافرمانی کی تحریک مسترد کر دینگے، مسلم لیگ ن: مارچوں کے قائدین سے رابطے کے لئے2 کمیٹیاں قائم، آج سے مذاکرات شروع کرینگی : نثار

اسلام آباد+ لاہور (خبر نگار خصوصی + خبر نگار) وفاقی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے مذاکرات کے لئے 2 کمیٹیاں تشکیل دے دیں ہیں۔ آج سے یہ کمیٹیاں باقاعدہ طور پر مذاکرات شروع کردیں گی۔ کمیٹیوں میں تمام جماعتوں کے رہنما شامل ہوں گے۔ سول نافرمانی کا اعلان ناقابل قبول ہے۔ سول ملٹری تعلقات اچھے ہیں۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان ملک کو غیر مستحکم کرنے کے مترادف ہے۔ ریڈ زون میں یلغار کرنے سے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی سازش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی دس لاکھ عوام جمع نہیں کرسکا تو اس میں حکومت کا قصور نہیں، دھرنے میں دس لاکھ افراد نہیں آئے تو حکومت پر غصہ نہ نکالا جائے۔ سکیورٹی کے شدید خطرات تھے ملٹری سکیورٹی ایجنسیوں نے خطرات بارے آگاہ کیا تھا حکومت کا کام لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے، افواج پاکستان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کررہی ہیں، اس دوران ہزاروں افراد کا لاہور سے اسلام آباد آجانا اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا یہ پولیس کی اعلیٰ کارکردگی ہے۔ میڈیا پر جنگ کا کوئی ذکر نہیں ہے ہر طرف دھرنے کی خبریں چل رہی ہیں، دھرنے والے قوم کو بخار میں مبتلا کررہے ہیں حکومت کسی سیاسی سرگرمی میں مداخلت نہیں کرے گی مگر ریڈ زون میں سفارتخانے ہیں ان میں اکثر ہمارے دوست ممالک کے سفارتخانے ہیں کچھ ایسے ممالک کے بھی ہیں جو ہمارے دوست نہیں۔ ریڈ زون کے علاقے میں شروع میں ہی ایک دوست ملک کا سفارتخانہ ہے۔ دھرنے والے لوگوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو پہلی بار اسلام آباد آئے ہیں ان کو ریڈزون کا علم ہی نہیں۔ کسی سفارتخانے پر کوئی حملہ نہیں ہوسکتا۔ ہماری سکیورٹی چوکس ہے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو ان کی پسند کی جگہ پر دھرنا دینے کی اجازت دی۔ ریڈ زون میں یلغار کے دعوے کئے جارہے ہیں کیا یہ جمہوریت ہے کہ ایک یا دو گروپ اسلام آباد آجائیں اور اعلان کریں کہ سب استعفے دیں کیا یہ کوئی اچھی روایت ہے۔ مجھے بہت دکھ ہوا ہے عمران خان نے جو تقریر کی انہیں سول نافرمانی کی تحریک کا کس نے کہا، سول نافرمانی تو ریاست کے خلاف اور مقبوضہ علاقے میں ہوتی ہے۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 67 سال ہوگئے ہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان 1990ء کے عشرہ میں شدید اختلافات تھے مگر کسی پارٹی نے سول نافرمانی کی بات نہیں کی۔ کل تحریک انصاف اقتدار میں آجائے اور دوسری جانب سے سول نافرمانی کا اعلان کردیا جائے یہ کوئی اچھی روایت نہیں ہوگی۔ میری عمران خان سے 45 سالہ دوستی ہے ہماری حکومت کا مستقبل اہم نہیں پاکستان اور ریاست کا مستقبل اہم ہے۔ خواتین، بچوں اور بزرگوں پر عمران خان رحم کریں اگر پارلیمنٹ میں بات نہیں کرنی تو پھر اعلان کردیا جائے کہ فیصلہ سڑکوں پر ہوگا پھر جو طاقت ور ہوگا وہ آجائے گا۔ میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے درخواست کرتا ہوں کہ اس قوم کو متحد کیا جائے پاکستان کی وہ سیاسی جماعتیں جن کا ہمارے ساتھ اختلاف ہے وہ بھی جمہوریت کے ساتھ ہیں کوئی تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے ساتھ نہیں۔ جب کوئی گروہ ریڈزون میں مداخلت کرنا شروع کردے گا تو پھر یہاں کوئی سفارتخانہ نہیں رہے گا۔ عمران خان نے مجھے پیغام بھجوایا کہ ہم نے دھرنا دو سو کلو میٹر آگے لے جانا ہے ہم نے اجازت دے دی۔ مگر ریڈ زون میں کسی جماعت کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے درخواست کرتا ہوں کہ جمہوری رویہ اپنائیں۔ حکومت دونوں جماعتوں سے آج مذاکرات شروع کررہی ہے۔ مذاکراتی ٹیموں میں تمام جماعتوں کے لوگ شامل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ تشدد سے پاکستان میں تباہی اور بربادی آسکتی ہے، سول ملٹری تعلقات بہت اچھے ہیں، فوکس فوجی آپریشن پر لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی لڑائی جمہوریت کا حسن ہے، یہ جمہوریت نہیں ہے کہ ایک ایک گروہ طاقت کے بل بوتے پر حکومت گرانے آجائے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی بات نہیں چلے گی۔ سول نافرمانی کی تحریک ملک کو غیر مستحکم کرنے والی بات ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ریڈ زون میں مختلف گروپ مداخلت شروع کردیں تو پھر سفارتخانے بند ہوجائیں گے۔ ریڈزون میں یلغار کرنے سے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔ چودھری نثار علی خان نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں پر چار روز میں سکیورٹی اخراجات کی مد میں تقریباً ایک ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ پاکستان کوئی بنانا ری پبلک نہیں میں حیران ہوں سول نافرمانی کی تجویز عمران کو کس نے دی ہے۔ ملک اس وقت مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ کیا سول نافرمانی کی تحریک آئین و قانون کے مطابق ہے، سول نافرمانی حکومت کے نہیں ریاست کے خلاف ہوتی ہے۔ سول نافرمانی اس وقت ہوتی ہے جب کسی ملک پر غیر ملکی تسلط ہوتا ہے، چار مارشل لاء لگے اس وقت وقت بھی سول نافرمانی کی ڈیمانڈ نہیں آئی، یہ پاکستان کے مستقبل کا سوال ہے۔ کل آپ آئے تو پھر یہ سول نافرمانی آپ کے خلاف بھی ہوسکتی ہے۔ خان صاحب نے سول نافرمانی کو پارٹی پالیسی بنا لیا ہے۔ ریڈ زون پر یلغار کے دعوے کرنے والے پاکستان کو بدنام بھی کرسکتے ہیں۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کسی پرتشدد کارروائی میں ملوث نہ ہوں۔ عمران اور طاہر القادری کی ہر آئینی بات ماننے کیلئے تیار ہیں۔ لاہور سے خبر نگار کے مطابق حکومت نے انقلاب اور آزادی مارچ کرنے والوں سے براہ راست رابطے کا فیصلہ کرتے ہوئے اہم سیاسی جماعتوں کے سینئر رہنمائوں سمیت 5/5 رہنمائوں پر مشتمل دو کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں۔ تحریک انصاف سے رابطے اور مذاکرات کیلئے 5 رکنی کمیٹی میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما خورشید شاہ، پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اعتزاز احسن، مسلم لیگ ن کے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور وزیر اطلاعات پرویز رشید شامل ہیں۔ صوبہ خیبر پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت میں شامل ہونے کی وجہ سے اور سابق سینئر وزیر صوبہ خیبر پی کے ہونے کی وجہ سے سراج الحق کو اس ٹیم میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ وہ گزشتہ ایک ہفتے سے تحریک انصاف کی قیادت سے رابطے میں بھی ہیں۔ ان کے حوالے سے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ بھی اس ٹیم کے اہم ترین ممبر ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک سے رابطے اور مذاکرات کے لئے 5 رکنی ٹیم میں اہم ترین کردار گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کا ہے جو عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری کو لاہور ائرپورٹ پر طیارے سے اتار کر لائے تھے۔ اس پانچ رکنی ٹیم کے دوسرے اہم ترین رکن گورنر سندھ عشرت العباد ہیں جبکہ دیگر تین ارکان میں ایم کیو ایم کے سینئر رہنما حیدر عباس رضوی، سابق وفاقی وزیر، پیپلز پارٹی کے کامیاب مذاکرات کار رحمن ملک اور مسلم لیگ ن کے وفاقی وزیر احسن اقبال بھی اس ٹیم کا حصہ ہیں۔ دریں اثناء ترجمان مسلم لیگ ن نے عمران کے بیان پر ردعمل میں کہا ہے کہ سول نافرمانی آئین اور قانون سے بغاوت ہے، عوام عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک مسترد کردیں گے۔ سول نافرمانی ریاست کے بنیادی اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔

اسلام آباد+ لاہور (وقائع نگار خصوصی+ خبرنگار) باخبر ذرائع کے مطابق وزیراعظم محمد نواز شریف کی زیرصدارت اسلام آباد میں اہم مشاورتی اجلاس ہوا جس میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے احتجاجی دھرنوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کو سیاسی انداز میں حل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اعلیٰ سطح کا مشاورتی اجلاس رات گئے جاری رہا۔ اس میں مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ محمد ظفر الحق اور وفاقی وزراء نے شرکت کی۔ مشاورتی اجلاس کے شرکاء نے وزیراعظم محمد نواز شریف کو آج پارلیمنٹ کے اجلاس سے خطاب کا مشورہ دیا ہے، دو الگ الگ مذاکراتی کمیٹیاں ’’جرگہ‘‘ کا کام کرینگی۔ یہ کمیٹیاں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں پر مشتمل ہونگی جو عمران خان اور طاہر القادری کو واپسی کا ’’محفوظ راستہ‘‘ دینگی۔ نجی ٹی وی کے مطابق اجلاس میں وزیراعظم کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا مشورہ دیا گیا۔ وزیراعظم آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرینگے، وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے دیگر جماعتوں سے مشاورت کرینگے۔ اس سے قبل لاہور میں ہونے والے مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ آئین اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ آئینی حدود میں اسلام آباد میں مظاہرے کیلئے اکٹھے ہونے والوں کی بات سننے کو تیار ہیں۔ سیاسی بحران کے حل کیلئے مصالحتی کوششیں جاری رکھیں گے۔ ملک کی تمام جمہوریت پسند قوتیں اس وقت ایک پلیٹ فارم پر متحد کھڑی ہیں۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، حمزہ شہباز شریف اور دیگر رہنمائوں نے شرکت کی۔ مشاورتی اجلاس میں اسلام آباد کی صورتحال اور تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے حوالے سے حکومتی اور جماعتی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ وزیراعظم نے اسلام آباد میں وفاقی وزرا کو اہم ہدایات جاری کیں۔ پھر وزیراعلیٰ شہباز شریف کو اسلام آباد بھیجا جہاں انہوں نے وفاقی وزرا کے ساتھ اہم اجلاس میں شرکت کی۔ جاتی عمرہ میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے درمیان ون ٹو ون ملاقات بھی ہوئی جس میں عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے مطالبات اور حکومت کو دیئے گئے الٹی میٹم کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا۔ اس ملاقات میں پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف سے رابطوں اور مذاکرات کیلئے دو کمیٹیاں بنانے کا فیصلہ ہوا۔ ان کمیٹیوں کا یہ مذاکراتی عمل گذشتہ شام ہی شروع ہو گیا۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کا متفقہ فیصلہ تھا کہ معاملات کو تدبر اور سیاسی طریقے سے حل کیا جائے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا متفقہ فیصلہ تھا کہ کسی بھی غیرآئینی فیصلے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل عدالتی کمشن کی پیشکش کر چکے ہیں، اس حوالے سے پیشرفت کرنے کیلئے تیار ہیں۔ عدالتی کمشن کی سفارشات کا مکمل احترام کیا جائے گا۔ نجی ٹی وی اور ایجنسیوں کے مطابق وزیراعظم محمد نواز شریف کی زیرصدارت مسلم لیگ ن کے مشاورتی اجلاس میں پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف سے مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا۔ اس موقع پر آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی قیادت کے ساتھ معاملات افہام و تفہیم سے سلجھانے پر اتفاق ہوا ہے۔ خورشید شاہ اور سراج الحق کے رابطوں کے نتائج کو حتمی فیصلے میں سامنے رکھا جائے گا۔ ملاقات کے دوران عوامی تحریک کے قائد طاہر القادری کے حکومت کو 48گھنٹے اور عمران خان کے 24 گھنٹے کے الٹی میٹم سے پیدا ہونیوالی سیاسی صورتحال کے بارے میں تفصیلی مشاورت کی گئی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب نے ملک کی موجودہ صورت حال کو تدبر اور سیاسی طریقے سے حل کرنے اور سیاسی بحران کے حل کے لئے مصالحتی کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ حکومت آئین اور قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے، جمہوریت میں فیصلے سڑکوں پر نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں اور بات چیت کے ذریعے ہی حل کیے جاسکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن ہر صورت ملک میں جمہوریت کا تحفظ کریگی، ملک اور قوم کی دن رات خدمات کرتے رہیں، جو لوگ احتجاج سے جمہوریت کیخلاف سازشیں کر رہے ہیں وہ ملک اور قوم کے خیرخواہ نہیں ہو سکتے۔ مسلم لیگ (ن) آئین کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے۔ مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے جمہوریت پسند قوتیں اس وقت ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہیں آئین اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ کسی صورت سمجھوتہ نہیں ہوگا آئینی حدود میں مظاہرین کے قائدین کی بات سننے کو تیار ہوں۔ اس موقع پر اسلام آباد میں وفاقی وزراء کو وزیراعظم نے اہم ہدایات جاری کیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے فیصلہ کیا ہے کہ سیاسی بحران کے حل کیلئے مصالحتی کوششیں جاری رکھی جائیں گے۔ اجلاس کے ذریعے سے وزیراعظم نے ایک بار پھر واضح کیا کہ پاکستان مسلم لیگ ن آئین کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے۔ جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام سے ترقی و خوشحالی کی منزلیں طے کی جاتی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ انتخابات پر دھاندلی کے الزامات کی صاف شفاف تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام سے متعلق معاملے میں پیش رفت کے لئے تیار ہیں۔ عدالتی کمیشن کی سفارشات اور تحقیقات کا احترام کیا جائے گا، ان کی رپورٹ تسلیم کر لیں گے۔

ای پیپر-دی نیشن