• news

کیا عمران خان اور طاہر القادری اپنے مقاصد حاصل کرسکیں گے؟

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزیراعظم نواز شریف کو مستعفی ہونے کیلئے 48گھنٹے کی مہلت اور سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ عوام بجلی‘ پانی‘ گیس کے بل نہ دیں ۔ فوجداری اور دوسری دفعات 123,153اور 153Aکے تحت یہ عمل قانون کی گرفت میں آتا ہے قانونی ماہرین کیمطابق کسی حکومت کو مالی طور پر مفلوج کرکے یا کسی ایجی ٹیشن کے ذریعے ختم کرنے کی سرگرمی کو قانون کی زبان میں بغاوت قرار دیا جاتا ہے۔ وفاقی وزراءنے کہا ہے کہ عمران خان کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان غیر قانونی اور بغاوت کے مترادف ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ عمران خان کے بیان سے بازار حصص اور ملکی معیشت پر منفی اثرات پڑے ہیں‘ انہیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف نے حکومت نہیں جمہوریت کو ڈیڈ لائن دی جبکہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ عمران خان سیاسی خودکشی کر رہے ہیں۔ سول نافرمانی سے ملک میں انتشار پھیلے گا۔
ملک کے آئینی اور قانونی ماہرین نے عمران خان کے مطالبات کو ہی سرے سے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ منتخب وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ درست نہیں ہے۔ سینئر قانون دان اورماہر آئین عابد حسن منٹو نے اس مطالبے کو ماورائے آئین قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم سپریم کورٹ پر اثر انداز نہیں ہوسکتے اس لئے ایسی صورت میں تحقیقاتی کمیشن کو تسلیم نہ کرنا عدلیہ پر عدم اعتماد کے زمرے میں شمار ہوتا ہے جس کی کوئی آئینی توجیح نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح ایک اور ماہرین آئین و قانون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن کیمطابق ایک منتخب وزیراعظم کی کنپٹی پر پستول رکھ کر ان سے استعفیٰ کا مطالبہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اس لئے جب دریں حالات ہم عمران خان کے مطالبات کا جائزہ لیتے ہیں تو ان مطالبات کو کسی بھی طور آئین اور قانون کے دائرے کے اندر قرار نہیں دیا جاسکتا اس لئے بہتر ہے کہ عمران خان سپریم کورٹ کی جانب سے حکومتی درخواست پر قائم کئے جانے والے تحقیقاتی کمیشن کی ٹیکٹس فائنڈنگ کا انتظار کرے ہاں اگر انہیں کمیشن کی مدت یعنی تین ماہ پر اعتراض ہو تو اس حوالے سے وہ اس مدت کو کم کرنے کا مطالبہ ضرور کرسکتے ہیں جس پر حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیئے تاکہ یہ مسئلہ بہرطور حل ہوسکے۔عمران خان جو دعوے کر رہے ہیں کہ ہم یہ کرینگے اور وہ کرینگے‘ سب کا احتساب ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ ان دعو¶ں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وزیراعظم بننا چاہتے ہیںفرض کیجئے کہ عمران خان موجودہ حکومت کو چلتا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور خود حکومت بنا لیتے ہیں تو کیا کل کلاں کو کوئی اور یہی عمل نہیں دہرائے گا؟ میاں نواز شریف یا مسلم لیگ ن کی غلطیوں اور حماقتوں کے باوجود ان کی مقبولیت میں زیادہ فرق نہیں پڑا ہے‘ خاص طور پر اہل پنجاب کی اکثریت انکے ساتھ ہے۔ رہے طاہر القادری تو ان کا بس ایک ہی نعرہ ہے کہ وہ اسی ماہ میں انقلاب لے آئینگے اور ستمبر 2014ءکو موجودہ حکومت کا نام و نشان تک نہ ہوگا یہ سب کچھ کیسے ہوگا۔ ہم بتائے دیتے ہیں کہ اسلام آباد میں یہ دونوں کھلاڑی زیادہ عرصہ تک دھرنا دے سکیں گے؟ عمران خان نے 10لاکھ افراد کا مارچ نکالنے کا اعلان کیا تھا لیکن 14اگست کو لاہور سے نکلنے والے مارچ میں 50ہزار افراد بھی نہیں تھے اور آزاد ذرائع کے شرکاءکی تعداد بہت ہی کم بتا رہے ہیں حکومت نے مجبور ہو کر راستے کھولے تھے۔
عمران خان اور طاہرالقادری دونوں کا دعویٰ ہے کہ اپنے مقاصد پورے ہونے تک اسلام آباد سے نہیں جائینگے۔ یہ خطرہ اب بھی ہے کہ تیسری قوت مداخلت نہ کر بیٹھے۔ شیخ رشید فرما رہے ہیں کہ ”پوری قوم ملک بچانے کیلئے فوج کے ساتھ کھڑی ہے“۔ لیکن فوج کس کے ساتھ کھڑی ہے؟ فرض کیا کہ عمران خان کے دبا¶ پر نئے انتخابات کا مطالبہ مان لیا گیا تو کیا وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگلے وزیراعظم وہ ہونگے؟ پھر سوال ہے کہ نئے انتخابات کون کرائے گا اور عبوری حکومت کس کی ہوگی۔ کیا عمران خان اس پر اعتبار کر لیں گے یا پھر 35 پنکچر لگنے کا شکوہ کرینگے؟ انہیں تو عدالتوں اور معزز ججوں پر بھی اعتبار نہیں۔ دریں اثناءعدالت عظمیٰ نے انتباہ کیا ہے کہ ”ریاستی ادارے صورتحال کو جواز بنا کر غیر آئینی اقدام سے باز رہیں“۔ ماورائے آئین اقدام غداری ہوگی۔ عدالت کا اشارہ کن ریاستی اداروں کی طرف ہے۔ یہ محتاج واضاحت نہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے تو گذشتہ سوموار کو ملک بھر میں احتجاج اور دھرنے دینے کا اعلان کردیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے معاملات خطرناک رخ پر جا رہے ہیں۔حکومت نے عمران خان اور طاہر القادری سے مذاکرات کیلئے کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں۔ ہم حکومت‘ اپوزیشن جماعتوں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے درخواست کرینگے کہ وہ اس سیاسی بحران کا جلد کوئی حل نکال لیں۔ اب عمران خان نے گزشتہ شام 6 بجے اپنے کارکنوں کو پارلیمنٹ اور وزیر اعظم ہاﺅس جانے کا اعلان کیا ہے اسکے اس اقدام سے خون خرابہ اور فوج کے آنے کاخطرہ ہے۔

ای پیپر-دی نیشن