• news

تحریک آزادی کشمیر ۔ اور جہاد نیلا بٹ

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے چار بڑے ممالک پاکستان، بھارت، چین اور افغانستان کے درمیان ایشیاءکا دل کہلانے والی ریاست جموں و کشمیر کرہ ارض پر ایک عجوبہ سے کم نہیں ہے ۔ 1947ءمیں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر عمل میں آنے والی تقسیم برصغیر کشمیر کے مسلمانوں کیلئے بھارت کی جبراً غلامی کا سلسلہ شروع ہوا۔ قیام پاکستان کے وقت 3 لاکھ شہید اسے اس تحریک آزادی کا آغاز ہوا۔ تقسیم برصغیر کے فارمولے کے مطابق 3 جون 1947ءکے اعلان تقسیم ہند کی روشنی میں اہلیان کشمیر کی واحد سیاسی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے 19 جولائی 1947ءکو سرینگر میں منعقد اجلاس میں جموں کے حصہ سے متعین 3 لاکھ مسلمان ڈوگرہ، ہندوﺅں غنڈوں کے ہاتھوں گاجر مولی کی طرح کٹ گئے۔ قانونی فطرت ہے کہ کچھ لوگ اپنے اچھے کارناموں کی وجہ سے حیات بادواں حاصل کر لیتے ہیں۔ دھیر کوٹ کے جنوب مشرق میں نیلا بٹ کو بھی ریاست جموں و کشمیر کی تحریک آزادی میں تاریخی اور اہم مقام حاصل ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاںسردار محمد عبدالقیوم اور انکے ساتھیوں نے ڈوگرہ حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان کیا جو کہ 13 جولائی 1931ءکے شہیدوں کا تسلسل ہے اور جدوجہد آزادی کی سطح جدوجہد کا آغاز تھا جو آج بھی جاری ہے۔ مجاہد اول نے پہلی گولی چلا کر جہاد آزادی کی ابتداءکی۔ پہلے شہید سید خادم حسین شاہ، غازی محمد اسماعیل، سید صادق حسین شاہ، سردار عبدالرزاق، سید مظفر حسین شاہ، میر سجاد حسین شاہ، سردار غفار خان اور دیگر سینکڑوں جذبہ جہاد سے سرشار لوگ شامل تھے۔ جنہوں نے حلف اٹھانے کے بعد جہاد کیا۔ سردار عبدالقیوم خان اور ان کے ساتھیوں کے جہاد کی تائید اور نیلا بٹ سے تحریک آزادی کشمیر کے آغاز کا مختلف مسلمان اور غیر مسلم مورخین نے بھی اپنی تحریروں میں ذکر کیا۔ بقول مجاہد اول کہ نیلا بٹ کے حوالہ سے ہماری قدرتی رہنمائی تھی۔ اس جدوجہدکے نتیجہ میں آزاد کشمیر اور گلگت ، بلتستان کا یہ مشتمل ریاست کا 32 ہزار مربع میل علاقہ کی آزاد ہوا۔ جو کہ آزادی کا بیس کیمپ ہے اور پاکستان دفاعی مورچہ ہے۔ نیلا بٹ کو اس لحاظ سے بھی فضیلت حاصل ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے 1990ءکے دوران میں جب بھارت اور پاکستان کے درمیان زبردست کشیدگی تھی یوم نیلا بٹ کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم موجود تھا اس سے بھارت اور پوری دنیا کو شدید دھچکا لگا تھا۔ کشمیر سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے خوشی کا باعث تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے اس خط کی آزادی میں لیفٹیننٹ شاہ ولی جرال شہید اور لاکھوں شہیدوں کا خون شامل تھا۔
23 اگست 1947ءکے آغاز جہاد 1949ءکی اقوام متحدہ کی جانب سے جنگ بندی کے بعد کشمیری طویل کہانی ہے جس نے ہر کشمیری کو یہ بات سمجھادی ہے کہ آزادی خیرات میں نہیں ملتی۔ مقبوضہ کشمیر بھارت کے انسانیت سنور سلوک ماروائے عدالت قتل پر انسانی حقوق کے عالمی اداروں کا فرض ہے کہ اپنا کردار ادا کریں اور بھارت کو بے نقاب کریں اور اقوام متحدہ کی پاس شدہ اور تسلیم شدہ قرار دادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کروائیں۔

ای پیپر-دی نیشن