عزم و ہمت کی داستان
پاکستان بڑی محنت اور قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ۔ محنت کوشش اور قربانیاں دینے کا مقصد یہی تھا کہ مسلم قوم کیلئے ایک ایسا خطہ، ایساملک اور ایسی ریاست قائم کی جائے جہاں لوگ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اقتصادی اعتبار سے خود مختار ہوں۔ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق خوشحال زندگی بسر کر سکیں۔ ان کا اپنا جمہوری نظام، انکی اپنی وضع کردہ اقتصادی پالیسی ہو اور مسلمان جو معاشی و اقتصادی طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں، انہیں خوشحال بنایا جائے مگر افسوس ان میں ایک مقصد بھی پورا نہ ہو سکا۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں پاکستان کا قیام وجود میں آیا۔ بانیانِ پاکستان ،پاکستان کو ایک جدید اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ایسا ملک جو صرف سیاسی آزادی ہی کا حامل نہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ معاشی آزادی بھی حاصل ہو۔ اس کی مثال کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ہیںجنہیں آج کے زمانے میں اقتصادی میدان میں جست لگائے ہوئے شیر کہا گیا ہے۔ اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہم نے اپنے آپ میں ایسی کوئی” شیری“ پیدا نہیں کی، ہماری معیشت کا انحصار تمام تر غیر ملکی امداد پر ہے اس لئے ہم دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ہم اقتصادی طور پر آزاد ہیں۔پاکستان آج تک فلاحی ریاست نہیں بن سکا ، صرف وعدے کیے جاتے ہیں کہ پاکستان میں مساوات اور اخوت کی بنا پر ایک فلاحی ریاست قائم کی جائیگی لیکن ابھی تک نہ اسلام کے دعوے دار ایسا کر سکے ہیں نہ سوشلسٹ نظریات کے حامل اس مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں۔ سب سے اہم چیز جمہوریت کو چلانا ہے۔ عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے، خواہ کوئی بھی کامیاب ہو کے آئے، اس میں دشمنی کی بات نہیں ہے، ہار اور جیت کو زندگی اور موت کا مقصد نہیں بنانا چاہئے۔ یہ جمہوریت کا طریقہ نہیں ہے۔رواداری ہی سے ہم قیام پاکستان کے مقاصد پورے کر سکتے ہیں۔جن لوگوں نے پاکستان بنتے دیکھا، ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی وہی اسکی قدر و قیمت جانتے ہیں۔ ان میں ایک نام چوہدری فرزند علی کا ہے۔ انہوں نے ”عزم و ہمت کی داستان“ لکھ اور پھر چھپوا کر تمام تفصیل بیان کر دی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت وہ چند سال کے تھے کہ انہیں انتہائی کسمپرسی کے عالم میں اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان ہجرت کرنا پڑی۔ یہ ایسا وقت تھا کہ ان کا اپنے خاندان سمیت زندہ بچ جانا ایک معجزہ تھا اور غربت کا یہ عالم کہ پاکستان آنے پر چوتھی جماعت میں بورڈ کے امتحان کی فیس ادا کرنے کیلئے ایک روپیہ تک پاس نہ تھا چوہدری فرزند علی راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ راجپوت بہادری کیساتھ جفا کش ہوتے ہیں۔ چنانچہ راجپوتوں کا یہ سپوت اپنی شبانہ روز محنت ، ہمت ،لگن اور دیانت داری کی بدولت کوٹھیوں اور کاروں کا مالک بنا۔ وہ سب کچھ حاصل کیا جو ایک بزنس مین کی خواہش ہوتی ہے۔” ایک راجپوت کی عزم و ہمت کی داستان“ میں چوہدری فرزند علی ہندوﺅں کی سازش، پاکستان کے لئے ہجرت، لدھیانہ کا مہاجر کیمپ کی تمام تفصیل بیان کی ہے جو سبق آموز ہے۔چوہدری فرزند علی نے کتاب لکھنے کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ آنے والی نسلیں اس کتاب کے ذریعے ہمیں یاد رکھ سکیں اور خود کو بھی پہچان سکیں کہ وہ در اصل کون ہیں اور ان کے آباﺅ اجداد نے یہ گلشن آباد کرنے کیلئے کتنی قربانیاں دیں اور کتنی انتھک جدو جہد کی۔چوہدری فرزند علی کی بعض نامور شخصیات سے ملاقاتیں رہیں، انکی تفصیل بھی کتاب میں موجود ہے۔ ان میں شورش کاشمیری ، حبیب جالب، استاد دامن ،ساغر صدیقی، اشفاق احمد، احسان دانش، احمد ندیم قاسمی، نذیر ناجی، مولانا مودودی، ملک معراج خالد، صوفی تبسم ، میاں طفیل محمد، جنرل ٹکا خان ،اعظم چشتی ، مہدی حسن و دیگر شامل ہیں۔ چوہدری فرزند علی نے ” پاکستان“ ماضی، حال ،مستقبل کے نام سے بھی کتاب لکھی اور چھپوائی ، چوہدری صاحب خود ہی مصنف اور ناشر ہیں۔فاز انٹر نیشنل کے تحت وہ کتابیں لکھ کر شائع کرتے ہیں اور پتہ ان کی رہائش گاہ کا ہے۔ ”پاکستان“ ماضی، حال، مستقبل میں انہوں نے تحریک پاکستان کی ابتدا ، قیام پاکستان اور مستقبل کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔انہوں نے پاکستان کے شاندار مستقبل کی نوید دی ہے جس سے مایوسی کے پردے گرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔