• news

صدیوں کا بیٹا .... ڈاکٹر مجید نظامی

نظامی خاندان سے ہمارا تعلق جناب مجید نظامی کے بچپن کے دنوں سے ہے اور نوائے وقت سے ہمارے خاندان کا تعلق اس زمانے سے ہے جب اس کا اجراءہوا۔ راقم الحروف کے والد گرامی حکیم محمد شریف جگرانوں ؒ، جناب حمید نظامیؒ، جناب مجید نظامی کے قریبی عقیدت مندوں میں شامل ہیں۔ ان دونوں عظیم بھائیوں نے تحریک پاکستان کی تکمیل پاکستان میں بھر پور کردار ادا کیا۔ راقم الحروف کو بھی جناب مجید نظامی سے درجنوں بار ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ جب بھی ملاقات ہوتی ایک نیاولولہ، پیغام، تحریک اور نیا جذبہ ملتا۔ مجید نظامی صاحب حقیقت میں انسائیکلو پیڈیا آف پاکستان تھے۔ ایسے بڑے لوگ اپنی زندگی میں کروڑں لوگوں سے زیادہ تن تنہام کام کر جاتے ہیں اور ان کا کام صدیوں تک تاریخ میں زندہ رہتا ہے۔ جناب مجید نظامی کا قائم کیا ہوا نظریہ پاکستان ٹرسٹ جو نئی نسل کے لئے کام کر رہا ہے وہ کام ہم سب کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنے دیگر کار ہائے نمایاں کی وجہ سے جناب مجید نظامی ایک کھلی کتاب اور ایک سمندر کی مانند ہیں جو اپنا سفر تا قیامت جاری رکھیں گے۔ ان کے وصال سے بظاہر خلا نظر آتا ہے لیکن ان کی حقیقی جانشین محترمہ رمیزہ نظامی نے ان کے مشن کو ٹھیک اسی طرح راہ پر گامزن کر دیا ہے جس راہ پر یہ پہلے گامزن تھا۔ نظریاتی حوالوں سے جناب مجید نظامی کے مشن کو جناب رفیق تارڑ۔ مجیدہ وائیں، بیگم مہناز رفیع، شاہد رشید، ڈاکٹر اجمل نیازی، ولید اقبال، مجیب الرحمن شامی جیسے اعلیٰ بصیرت رکھنے والے لوگ بھی جاری رکھیں گے کیونکہ حقیقت کا چراغ ہمیشہ روشن رہتا ہے۔ سہولیات کے اعتبار سے بہترین درسگاہ تھی۔ مجید نظامی نے پرائمری مدارج طے کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول سانگلہ ہل میں درجہ نہم تک تعلیم مکمل کی۔
مجید نظامی ڈرائنگ کے بہت اچھے طالب علم تھے۔ فنون لطیفہ سے محبت کے اسی رحجان نے آگے چل کر مجید نظامی کو دولت سمیٹنے کے چکر میں نہیں پڑنے دیا۔ مجید نظامی ذہین طالب علم تھے لہٰذا ہر سال اول آتے۔ مجید نظامی دوست بنانے میں بڑے محتاط تھے۔ اس زمانے میں ان کے دوست شوکت علی خان اور حامد حسین ہوا کرتے تھے۔ شوکت تو کوئٹہ میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ حامد حسین ڈیفنس میں آج بھی اپنے گھر میں تن تنہا اللہ اللہ کرتے ہیں۔ نومبر 1954ءکے سررا ہے میں مجید نظامی نے مولانا آزاد کا ہی واقعہ لکھا تھا کہ 1954ءمیں شملہ کا نفرنس کے زمانے میں مولانا آزاد کانگریس کے صدر تھے۔ مولانا نے قائداعظم کو تار بھیجا کہ آپ مجھ سے مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان معاہدے کیلئے گفت و شنید کریں قائداعظم نے اس تار کا مختصر سا جواب بھیج دیا۔
مجھے بات چیت کرنا ہوگی....تو مسٹر گاندھی سے کروں گا جو کانگریس کے اصل لیڈر ہیں۔ آپ سے مل کر وقت کیوں ضائع کروں آپ تو محض ایک شو بوائے ہیں“۔اس وقت ہندوستان کی کانگریس نے شورو احتجاج سے آسمان سر پر اٹھالیا تھا کہ قائداعظم نے کانگریس کے صدر کو ”شو بوائے“ کہہ کر اس کی توہین کی ہے۔ لیکن بعد میں ایک معزز و موقر جریدے نے لکھا کہ کانگریس کے نئے صدر مسٹر دھیر پنڈت نہرو کے ” شو بوائے“ ہوں گے۔
سانگلہ ہل سے ”شاہ کوٹ“ دس بارہ میل کے فاصلے پر تھا۔ شاہ کوٹ میں ہر سال پیر نو لکھ ہزاری ؒ کے مزار پر ایک میلہ ہوا کرتا تھا۔ مجید نظامی ہر سال تانگے پر شاہ کوٹ جایا کرتے۔ آپ نے ایک دفعہ ہیلی کاپٹر میں سفر کرنے کی آفر مسترد کر دی تھی۔ ہوا یہ کہ نواز شریف کے ایک دور حکومت میں ایک مرتبہ انہوں نے مجید نظامی کو اپنے ساتھ ہیلی کاپٹر پر سانگلہ ہل چلنے کی دعوت دی کیونکہ نوازشریف سانگلہ ہل کے دورے پر جا رہے تھے تو مجید نظامی نے جواب دیا کہ میری اور آپ کی تعلق داری ہے لیکن میں اپنے شہر کے لوگوں پر یہ رعب ڈالنا نہیں چاہتا کہ میں وزیراعظم کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں سے نکلا ہوں۔مجید نظامی درجہ نہم کے بعد لاہور آگئے اور میٹرک پرائیوٹ کرنے کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ ایف اے میں آرٹس کے مضامین کا انتخاب کیا۔ عمر حیات ملک کالج کے پرنسپل تھے جن کا تعلق پشاور سے تھا فارسی کے استاد علم الدین سالک اور اکنامکس کے خواجہ اسلم تھے۔ عبدالبشیر آذری بھی مجید نظامی کے اساتذہ میں شامل تھے یہ وہ زمانہ تھا جب تحریک پاکستان زوروں پر تھی۔ تحریک کے جلسے جلوسوں میں شرکت کے باعث طالب علموں کو بغیر امتحان دئیے ہی ایف اے کی اسناد دی گئیں مگر مجید نظامی نے تحریک پاکستان میں بھی بھر پور حصہ لیا اورباقاعدہ امتحان میں حصہ لے کر کامیابی حاصل کر کے ایف اے کی سند حاصل کی۔ انکے اکثر ساتھیوں نے یہ سند اعزازی طور پر یونیورسٹی سے حاصل کی کیونکہ انہوں نے تحریک پاکستان میں عملی طور پر حصہ لیا۔مجید نظامی کے بار ے میں بڑے بھائی حمید نظامی کی خواہش تھی کہ وہ بی کام کریں جبکہ مجید نظامی نے بھائی کو بتائے بغیر تھرڈ ائیر میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوگئے اور بی اے مکمل کیا۔ سابق وزیر خزانہ سرتاج عزیز مجید نظامی کے دوستوں میں سے ہیں اور اسلامیہ کالج کے بعد بی کام میں ایک ساتھ پڑھتے رہے تھے۔ سرتاج عزیز نے بی کام مکمل کیا جبکہ مجید نظامی نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کا امتحان پاس کر کے ایم اے پولیٹیکل سائنس میں تعلیم مکمل کی اور اپنے کیرئیر کو تبدیل کر کے اپنی سمت کا خود تعین کیا۔
مجید نظامی اپنے مزاج کے خلاف باتوں پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کر تے تھے۔ حمید نظامی مرحوم کی شدید علالت کی خبر مجید نظامی کو شورش کاشمیری نے دی۔ اس وقت مجید نظامی لندن گریزان لائبریری میں تھے ۔ بھائی کی علالت کا سن کر وہ جس حال میں تھے اس روز، اسی وقت فوراً واپس چلے آئے۔ جونہی وہ لاہور پہنچے بھائی نے آنکھیں کھولیں اور کہا۔ ”اچھا ہوا تم آگئے“ اور اتنا کہہ کر ابدی نیند سوگئے۔ ان پانچ الفاظ میں مجید نظامی پر حمید نظامی کی اعتماد تھا جو مجید نظامی نے تاحیات برقرار رکھا۔ گورنمنٹ کالج اور یونیورسٹی کے دور میں جب وہ طالب علم تھے تقریباً چار سال تک یعنی 1950ءسے 1954ءتک ”سرراہے“ بھی لکھتے رہے تھے جس میں طنز کے پہلو بھی نکلتے تھے اور اصلاح معاشرہ بھی مقصود ہوتی تھی۔ مجید نظامی کا انداز تحریر لوگوں کے دلوں میں گویا مسرتوں پھول کھلا دیتا تھا۔ اس میں وہ تحریک پاکستان، حالات حاضرہ اور پولیٹیکل صورتحال پر دلچسپ اور کاٹ دار جملے لکھا کرتے تھے۔ ابتدائی ایام میں ”سرراہے“ میں ہی ایک مرتبہ انہوں نے بیگم رعنا لیاقت علی کے ”غرارے“ پر دلچسپ پیرائے میں طنز کیا۔ لیاقت علی خان جو پہلے ہی نوائے وقت سے ناراض رہتے تھے اور برہم ہو گئے اور مجید نظامی کی اس تحریر نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ”سرراہے“ کی ابتداءحمید نظامی مرحوم نے کی تھی بعد میں وقار انبالوی سمیت بہت سارے لوگ لکھتے رہے۔

ای پیپر-دی نیشن