• news

آزادی مارچ میں کرکٹ کلامیاں

عمران خان پاکستانی قوم کے ہیرو ہیں۔ انہوں نے ماضی میں کرکٹ کپتان کی حیثیت سے دنیا کے بہت سے میدانوں میں پاکستانی فتح کے جھنڈے گاڑے۔ اس کے بعد شوکت خانم کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے فلاحی اور تعلیمی ادارے بنا کر قوم کے دل جیت لئے اور پاکستانی اقدار کا پرچم پوری دنیا میں بلند کر دیا۔ پھر یوں ہوا کہ عمران خان اپنی مقبولیت کا پرچم اٹھائے کرکٹ کے میدان سے سیاست کے میدان میں اتر آئے۔ اس میدان میں بھی انہیں زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔ پاکستان میں ہونیوالے گزشتہ انتخابات کے نتائج انکے امیدوں کیمطابق نہیں نکلے۔ عمران خان نے مختلف وجوہات کی بنیاد پر تمام انتخابی عمل اور نتائج کو دھاندلی کا ثمر قرار دیا۔ کئی ماہ دھاندلی کے خلاف مہم چلانے کے بعد حکومت الٹانے کیلئے چودہ اگست کو، جو پاکستان کا یوم آزادی ہے، اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ 14 اگست کو یہ آزادی مارچ لاہور سے روانہ ہوا اور پندرہ اگست کو اسلام آباد پہنچا۔ عمران خان نے اپنی تقاریر میں آزادی مارچ کو ایک میچ کے طور پر پیش کیا اور بار بار اعلان کیا کہ اس میچ میں دس لاکھ کھلاڑی میدان میں اتریں گے۔ جب اسلام آباد میں میدان سجا تو پتہ چلا کہ مقابلے کے میدان میں آدھا لاکھ کھلاڑی بھی موجود نہیں ہیں۔عمران خان نے تقاریر میں کرکٹ کی اصطلاحات استعمال کیں‘ اسلام آباد روانگی سے قبل خان صاحب نے ایک باﺅنسر پھینکتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ملک میں ایک ٹیکنو کریٹ عبوری حکومت قائم کی جائے جس پر ان کی اپنی ٹیم کے نائب کپتان جاوید ہاشمی احتجاجاً واک آﺅٹ ہو کر واپس ملتان چلے گئے۔ بعدازاں عمران خان نے خود ہی اپنے اس باﺅنسر کو نو بال قرار دے دیا۔ اس طرح جاوید ہاشمی میچ میں بلے بازی کیلئے دوبارہ سیاسی پچ پر آ گئے۔ سولہ مارچ کو اسلام آباد میں خطاب کے دوران فرمایا۔ میں اپنے تحریکیوں کو زیادہ دیر تک قابو میں نہیں رکھ سکوں گا۔ میں خود بھی ایک فاسٹ باﺅلر ہوں اس لئے میں زیادہ دیر تک صبر نہیں کر سکتا۔ اس دن انہوں نے ایک تقریر میں انگشتِ شہادت کو ہوا میں لہراتے ہوئے ارشاد کیا کہ جب کرکٹ ایمپائر اپنی انگلی بلند کرے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ سامنے والا کھلاڑی آﺅٹ ہو گیا ہے۔ ان سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ میچ کھیلنے والا فاسٹ باﺅلر کیا گیند پھینکنے کے بعد خود ایمپائر بن کر انگلی کھڑی کرکے مخالف کھلاڑی کو آﺅٹ قرار دے سکتا ہے؟ اسی دوران ایڈیشنل سیشن جج لاہور نے منہاج القرآن کے وکیل منصور الرحمن آفریدی کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے 14 افراد کی پولیس کے ہاتھوں موت پر اکیس افراد کیخلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم جاری کیا تو عمران خان نے اسلام آباد میں اپنی مارچیہ پچ پر اعلان کیا کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کی وکٹ اڑا دی ہے اب وزیراعظم کی وکٹ اڑائی جائیگی۔ ایمپائرنگ کے حوالے سے عمران خان نے ایک اور دلچسپ انکشاف کیا۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف بھی کرکٹ کے کھلاڑی رہے ہیں۔ وہ جب جم خانہ کلب میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے تو میچ جیتنے کیلئے اپنی مرضی کے ایمپائر بھی خود لایا کرتے تھے۔ انہوں نے انتخابات میں اپنے مقرر کردہ ایمپائروں کی مدد سے جیتے ہیں۔ جوش خطابت میں انہیں یاد نہیں رہا کہ انتخابی ایمپائر مقرر کرنیوالے آصف زرداری پرویز اشرف اور چودھری پرویز الٰہی تھے جبکہ چیف ایمپائر جسٹس فخرالدین کی نامزدگی میں خان صاحب کی اشیرباد بھی شامل تھی۔ سولہ اگست رات گئے عمران خان کے لانگ مارچی ساتھی شیخ رشید (یہ پتہ نہیں وہ کسی کے حقیقی ساتھی ہیں بھی یا نہیں) نے فرمایا کہ تحریکی کھلاڑی 17 اگست کی شام چھ بجے تک کریز پر موجود رہیں۔ اس دوران اگر وزیراعظم نے استعفیٰ نہ دیا تو عمران خان ایک زبردست باﺅنسر حکومتی بلے بازوں کی طرف پھینکیں گے۔ اسی دن عمران خان نے اپنی قسط وار تقریر کی ایک قسط میں کہا کہ میں آج حکومت کو اسی طرح بولڈ آﺅٹ کرنیوالا ہوں جس طرح میں نے ایک کراچی ٹسٹ میں بھارتی ٹیم کے چار پانچ کھلاڑی آﺅٹ کرکے پاکستان کو فتح دلوائی تھی۔ اس کے اطلاق کے ساتھ ہی عمران خان کے دھرنے میں بیٹھے ہوئے ہزاروں مرد خواتین اور بچے اور ملک بھر میں ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھے ہوئے کروڑوں پاکستانی ہمہ تن گوش ہو گئے اور ٹی وی سکرینوں پر نظریں جما دیں تاکہ عمران خان کے اس باﺅنسر کو دیکھ سکیں جو نواز شریف کو حکومت سمیت بولڈ آﺅٹ یا ایل بی ڈبلیو کرنے والا تھا۔ انہوں نے اپنا خاص الخاص باﺅنسر پھینکتے ہوئے قوم سے اپیل کی کہ وہ آج ہی سے سول نافرمانی کا آغاز کرے اور بجلی گیس پانی کے بل، انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی حکومت کو ادائیگی بند کر دے۔ پھر کہا کہ وہ دو دن تک اپنے کھلاڑیوں کو اس میدان میں روک کر رکھیں گے اس کے بعد کھلاڑی جانیں اور حکومت جانے۔ اسکے ساتھ ہی بہت سے ٹی وی مبصرین جو مسلسل کئی دن سے عمران خان کی حمایت میں بول رہے تھے ان پر تنقید کرنے لگے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ عمران خان کی عزت محفوظ رکھے۔ ہم کسی قومی ہیرو کو زیرو ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔

ای پیپر-دی نیشن