تعلیمی بورڈ زکے مایوس کن نتائج
پنجاب بھر کے تعلیمی بورڈز نے نہم کے سالانہ امتحانات کے نتائج کا اعلان کر دیا جس میں کامیابی کا تناسب 33 سے 37 فیصد تک رہا۔
ملک و معاشرے کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار بامقصد اور جدید تعلیم پر ہے۔ ہمارے ہاں شرح خواندگی انتہائی کم ہے۔ حکومتی اعداد وشمار شرح خواندگی 58 فیصد بتاتے ہیں۔ یہ اعدادوشمار نادرا سے لیے جاتے ہیں جس میں شناختی کارڈر پر دستخط کرنیوالے کو پڑھا لکھا شمار کیا جاتا ہے۔ اگر میٹرک پاس کو خواندہ قرار دیا جائے تو شرح خواندگی دس پندرہ فیصد سے زائد نہیں ہو سکتی۔ ہر حکومت تعلیم کے فروغ کے تو نعرے لگاتی ہے لیکن عملی طور پر ڈھاک تین پات کے مصداق اس میدان میں ہم جہاں تھے وہیں ہیں۔ صرف جماعت نہم ہی پر مفقود نہیں ہے دہم، ایف اے، ایس ایف اور گریجوایشن کے نتائج بھی مایوس کن ہیں۔ ابھی کل ہی پاکستان کی ایک بڑی جامعہ کا بی اے کا نتیجہ بھی 37 فیصد رہا۔ سرکاری سکولوں میں تعلیمی سہولتوں کا فقدان اور اساتذہ کی غیر ذمہ داری اور متعلقہ حکام کی عدم دلچسپی تعلیمی انحطاط کا سبب ہے۔ نجی ادارے کمرشل بنیادوں پر چل رہے ہیں مگر وہاں بھی معیار تعلیم حوصلہ افزاء نہیں۔ انکی تنظیمیں شرح خواندگی میں حکومتی معاون ہونے کی دعویدار ہیں‘ ان کو بھی بڑے نتائج کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ حکومت شرمناک نتائج کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داروں کا تعین کرے اور نظام تعلیم میں نتیجہ خیز اصلاحات کے اقدامات اٹھائے۔