شہریار خان کی بطور چیئرمین دوسری اننگز کا آغاز
چودھری محمد اشرف
پاکستان میں سیاسی گرما گرمی کی وجہ سے کھیلوں کے شائقین کی نظریں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر لگی ہوئی ہیں جہاں ایک سیاسی جماعت کے سربراہ جو سابق کپتان بھی رہ چکے ہیں کے علاوہ دوسری مذہبی جماعت کے کینیڈا پلٹ سربراہ اپنے اپنی جماعتوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ دونوں جماعتیں اپنے مقصد میں کامیاب ہو پاتی ہیں یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے تاہم اتنا ضرور ہے کہ اس تمام صورتحال کی وجہ سے جہاں روزمرہ زندگی متاثر ہو رہی ہے وہیں پر کھیلوں سے وابستہ کھلاڑی اور آفیشلز بھی پریشان ہیں۔ کرکٹ پاکستان کا قومی کھیل نہیں اس کے باوجود پوری قوم کی نظریں کرکٹ بورڈ اور قومی ٹیم پر لگی رہتی ہیں کہ بورڈ اور ٹیم کیا کر رہی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ میں ایک مرتبہ پھر جمہوری عمل کا آغاز ہوا ہے جس میں نئے آئین کے تحت بورڈ کے سربراہ کا انتخابی عمل مکمل کیا گیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر و قائم مقام جسٹس (ر) محمد ثائر علی کے زیر نگرانی چیئرمین پی سی بی کا انتخابی عمل پورا ہوا۔ گورننگ بورڈ کے ارکان نے متفقہ طور پر سابق ایمبیسڈر و سابق چیئرمین شہریار خان کو بورڈ کا نیا سربراہ چن لیا۔ نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ہونے والا اجلاس 3 گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہا جبکہ اندرونی کہانی یہ ہے کہ الیکشن کا پراسیس تقریباً 15 منٹ میں ہی مکمل ہو گیا تاہم بقیہ پونے تین گھنٹوں میں کیا کچھ طے پایا اس کی تفصیلات ابھی نہیں آئی ہیں۔ بعض حلقوں کی طرف سے خیال ظاہر کی جا رہا ہے کہ اجلاس میں سابق عبوری چیئرمین نجم سیٹھی کے بورڈ میں مستقبل کے حوالے سے لائحہ عمل طے کیا جاتا رہا تھا۔ نو منتخب اور جمہوری چیئرمین شہریار خان اپنے پہلے خطاب میں واضح کر چکے ہیں کہ وہ دور دراز ممالک کے دورہ پر نہیں جایا کریں گے، آخر وہ ایسا کیوں کرنا چاہتے ہیں شاید اس کے لئے نجم سیٹھی ”بہترین چوائس“ ہوں کیوں ماضی میں انہوں نے پاکستان کرکٹ کی بین الاقوامی سطح پر ساکھ کو بہتر بنانے کے لئے کافی کام کر رکھا ہے اس تسلسل کو وہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ نومنتخب چیئرمین شہریار خان نے اپنی دوسری اننگز کا آغاز کرتے وقت جس عزم کا اظہار کیا ہے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ قومی کرکٹ کو گراس روٹ لیول سے انٹرنیشنل سطح تک ترقی دیں گے۔ شہریار خان کا کہنا ہے کہ وہ اس عہدے کے متمنی نہیں تھے وزیراعظم پاکستان کی جانب سے انہیں پہلے بھی کہا گیا تھا کہ بطور چیئرمین بورڈ میں کام کروں لیکن میں نے انکار کر دیا تھا، اب الیکشن کے ذریعے منتخب ہوا ہوں میری کوشش ہو گی کہ ماضی میں جو کام نہیں کر سکا انہیں مکمل کیا جائے گا۔ شہریار کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ کو تسلسل کی ضرورت ہے وہ اس صورت میں ممکن ہو سکے گی جب بورڈ مستحکم ہو تمام کام خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ میں پہلا جمہوری چیئرمین ہوں مجھ سے پہلے ذکاءاشرف بھی آئین کے تحت منتخب ہوئے تھے تاہم عدالتی احکامات کی روشنی میں وہ کام نہیں کر سکے، مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ پاکستان کرکٹ کن مسائل سے دوچار ہے جنہیں دورکرنے کے لئے ہنگامی اور دیرپا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ شہریار خان کا کہنا تھا کہ ٹیم میں تبدیلیوں کے حق میں نہیں تاہم بھاری ٹیم مینجمنٹ کے بارے میں غور کیا جا سکتا ہے۔ شہریار خان کے سابق دور میں بھی بطور چیئرمین اور بطور مینجر کافی غلطیاں سر زد ہوئیں ہیں جن کا اژالہ شاید ہی کیا جا سکے تاہم امید ہے کہ اب ایسا کچھ نہیں ہوگا اور نئے چیئرمین بورڈ کے معاملات کے ساتھ ساتھ اپنی مینجمنٹ پر چیک اینڈ بیلنس رکھیں گے۔ نومنتخب چیئرمین نے کرکٹ بورڈ میں ڈاﺅن سائزنگ کا عندیہ دیدیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا وہ کن افسران پر ”وار“ کرتے ہیں۔ چیئرمین شہریار خان نے پی سی بی کی مینجمنٹ جس کے ڈائریکٹرز کا پہلا اجلاس گزشتہ دنوں بلایا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لئے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ سمیت دیگر ممالک کی انڈر 19 اور اے ٹیموں کو پاکستان لانے کی منصوبہ بندی تیار کی جائے جبکہ پاکستان میں گراس روٹ لیول پر سکولز کی سطح پر کرکٹ سرگرمیوں کو بڑھایا جائے اس کے لئے حکومت پاکستان سے درخواست کی جائے کہ وہ ہر سکول کو گراﺅنڈ مہیا کرے۔ شہریار خان اپنے تمام فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے میں کس قدر بااختیار ہوتے ہیں اس کے بارے میں فوری طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم قومی ٹیم کی اچھی بری کارکردگی کی تمام ذمہ داری ان پر عائد ہو گی۔ نو منتخب چیئرمین کی زیر صدارت گورننگ بورڈ کا اجلاس آج لاہور میں ہونے جا رہا ہے یہ اجلاس اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ اس میں شہریار خان نے گورننگ بورڈ کے ارکان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے ساتھ مستقبل کی حکمت عملی پر ارکان کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ پی سی بی کے نئے آئین کے تحت گورننگ بورڈ کے ارکان کی مدت تین سال ہے لہذا ان کے دور میں نئے کسی ریجن اور ڈیپارٹمنٹ کے گورننگ بورڈ میں شامل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ چیئرمین کو چاہیے کہ جو ریجنز اور ڈیپارٹمنٹ گورننگ بورڈ میں نہیں ان پر خاص توجہ دی جائے۔
دوسری جانب سری لنکا میں موجود پاکستان کرکٹ ٹیم دو ٹیسٹ میچوں میں شکست کی ہزیمت کا سامنا کرنے کے بعد تین ایک روزہ میچوں کی سیریز کا آج سے آغاز کرنے جا رہی ہے۔ ٹیسٹ سیریز میں شکست کی تمام ذمہ داری بلے بازوں پر عائد ہوتی ہے جن کے غیر ذمہ دارانہ کھیل نے نہ صرف پاکستان ٹیم کو سری لنکا کے ہاتھوں وائٹ واش شکست سے دوچار کیا بلکہ ٹیسٹ رینکنگ میں بھی اس کی تیسری پوزیشن برقرار نہ رہی۔ دونوں ٹیموں کے درمیان اب تک 139 ایک روزہ انٹرنیشنل میچز کھیلے جا چکے ہیں جن میں سے 80 میچوں میں قومی ٹیم نے کامیابی حاصل کر رکھی ہے جبکہ 54 میچوں میں اسے سری لنکا کے ہاتھوں شکست کا سامنا رہا ہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان ایک میچ ٹائی جبکہ چار میچ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوئے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین شہریار خان کی جانب سے مصباح الحق کو 2015ءکے عالمی کپ تک کپتان برقرار رکھنے کے اعلان کے بعد مصباح الحق کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ون ڈے سیریز میں اپنی اور ٹیم کی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں۔ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان تین ایک روزہ میچوں کی سیریز کا پہلا میچ آج 23 اگست کو ہمبنٹوٹا میں کھیلا جائے گا۔ پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق یہ میچ صبح ساڑھے 9 بجے شروع ہوگا۔ سیریز کا دوسرا میچ 27 اگست کولمبو میں کھیلا جائے گا یہ میچ ڈے اور نائٹ ہوگا جو پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق دن دو بجے شروع ہوگا۔ سیریز کا تیسرا اور آخری میچ 30 اگست کو ڈمبولا میں کھیلا جائے گا یہ میچ پاکستان کے معیاری قوت کے مطابق صبح ساڑھے 9 بجے شروع ہوگا۔ ٹیسٹ سیریز میں میچ آفیشلز کی جانب سے پاکستانی سپن باولر سعید اجمل کے باولنگ ایکشن کو غیر قانونی قراور دیئے جانے کی وجہ سے ون ڈے سیریز کے ابتدائی دو میچوں میں ان کی شرکت مشکوک ہو گئی ہے کیونکہ سعید اجمل بائیو مکینکس لیب میں ٹیسٹ کے لیے آسٹریلیا روانہ ہو گئے ہیں۔ جنید خان کی فٹنس بھی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے اس تمام صورتحال میں باولنگ کے شعبہ کو مضبوط کرنے کے لیے ٹیم مینجمنٹ نے پاکستان سے محمد عرفان کو بھی طلب کر رکھا ہے۔ امکان ہے کہ محمد عرفان کے ساتھ وہاب ریاض کو موقع دیا جائے گا۔