سکواش لیجنڈ۔۔۔۔۔روشن خان کا انتقال
اعجاز احمد شیخ
سکواش وہ کھیل ہے جس پر پاکستان نے عرصہ دراز تک اپنی حکمرانی برقرار رکھی لیکن بد قسمتی سے کھیل میں سیاست کا عنصر آنے سے نہ صرف سکواش دیگر کھیلوں میں بھی پاکستان کا گراف ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف جارہا ہے۔ 1947ءقیام پاکستان کے بعد سکواش میں سب سے پہلو ٹائٹل جیت کر لانے والے ہاشم خان آج ہم میں نہیں رہے گزشتہ دنوں امریکہ میں ہاشم خان کا انتقال ہوگیا جس سے کھیلوں سے وابستہ ہر شخص افسردہ ہوگیا۔ مرحوم کی پاکستان کے لئے کھیل کے میدان میں خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ (100) بہاریں دیکھنے والے سابق لیجنڈ کھلاڑی ہاشم خان نے 1951ءسے لیکر1958ءتک (7) مرتبہ برٹش اوپن کا ٹائٹل اپنے نام کیا ہاشم خان کی وفات کے ساتھ پاکستانی سکواش تاریخ کا ایک روشن باب بند ہوگیا‘ پشاور کے نواحی گاو¿ں نواں کلی سے تعلق رکھنے والے ہاشم خان نے1951ءمیں جب پہلی بار برٹش اوپن ٹائٹل جیتا اس وقت عمر35 یا 36 برس تھی۔چند ماہ قبل ہاشم خان نے اپنی100 ویں سالگرہ منائی‘ انھوں نے صرف 8 برس کی عمر میں اپنے والد عبداللہ کے ہمراہ ٹینس کورٹ جانا شروع کیا‘ یوں ہاشم بھی انگریزوں کو کھیلتا دیکھتے اور ٹینس کورٹ کے باہر جانے والی گیند اٹھا کر واپس کھلاڑیوںکو دیا کرتے‘ بال بوائے سے سکواش کھلاڑی بننے تک کا سفر خاصا طویل رہا‘ پہلی مرتبہ1944ءمیں انھوں نے ممبئی میں آل انڈیا پروفیشنل ٹورنامنٹ جیت کر دنیا بھر کو حیران کیا پھر مسلسل3 بار ٹائٹل اپنے نام کیا۔ ہاشم خان نے قیام پاکستان کے بعد 1951ءمیں پہلی بار برٹش اوپن میں حصہ لیا تھا‘ مقابلوں میں شرکت کے لئے انھیں جنگی سازو سامان لینے کے لئے جانے والی پاکستان ایئرفورس کی ایک خصوصی پرواز سے لندن پہنچایا گیا‘ ایونٹ میں انھوں نے ناقابل شکست رہتے ہوئے فائنل تک رسائی حاصل کی اور پھر مصر کے عبدالباری کو ہرا کر سکواش کورٹ میں پاکستانی فتوحات کا آغاز کیا۔ 37 سال کی عمر میں پروفیشنل چیمپئن بننے کے بعد انھوں نے مسلسل6 بار یہ اعزاز اپنے نام کیا‘ آٹھویں بار فائنل میں انھیں جہانگیر خان کے والد روشن خان کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ ہاشم نے3 بار یو ایس اوپن‘2 بار کینڈین اوپن ‘ اسکاٹش اوپن‘ ڈان لوپ اوپن سمیت کئی بین الاقوامی مقابلوں میں کامیابی حاصل کی۔ قومی لیجنڈ نے ایک اور گراں قدر اعزاز بھی حاصل کیا‘ وہ 1977ءسے1982ءتک مسلسل 6 بار برٹش اوپن کے ویٹرنز ٹائٹل کے حقدار ٹھرے۔ وہ آخری بار2000ءمیں پاکستان آئے‘ دورہ پشاور کے موقع پر ان کا کہنا تھا کہ سبز ہلالی پرچم لہرانا ان کا بچپن کاخواب تھا‘ جب پورا ہوا تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا‘ جب بھی سکواش کورٹ میں پاکستانی فتوحات کے آغاز کے حوالے سے ان کا نام لیا جاتا تو سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواں کلی اور پشاور انھیں مجبور کرتا ہے کہ وہ امریکا چھوڑ دیں لیکن زندگی کا ایک بڑا حصہ وہاں گزارنے اورخاندان کے دیگر افرادکی وجہ سے وہ بہت مجبور ہیں‘ البتہ اپنا وطن انھیں ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ مبصرین کے خیال میں آج عظیم سکواش لیجنڈ ہاشم خان ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کی مرجنان مرنج شخصیت اورچہرے پر کھلی مسکراہٹ ہمیشہ یاد رہے گی۔ ملک وقوم کے لئے ناقابل فراموش خدمات کے پیش نظر پاکستان ائیر فورس نے 10 کورٹس پر مبنی سکواش کمپلیکس ان سے منسوب کر رکھا ہے۔ ہاشم خان کی ہمت‘ جرا¿ت اور محنت نے انھیں ایک لیجنڈ بنا دیا۔صدر وزیر اعظم سمیت تمام قومی شخصیات نے ان کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ان کی خدمات کو سراہا ہے۔ وطن عزیز میں کھیلوں میں حصہ لینے والے نوجوان کھلاڑیوں کے سامنے ان کی مثال ایک رول ماڈل کی سی ہے۔ جو فنڈز اور سہولتوں کے فقدان کا رونا روتے ہیں‘ وہ اگر ہاشم خان کی باہمت زندگی اپنے لئے مثال بنالیں تو وہ بھی ملک وقوم کادنیائے کھیل میں نام روشن کر سکتے ہیں۔