سپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات‘ استعفی منظور نہ کریں : سراج الحق‘ امید ہے آج مسئلہ حل ہو جائیگا : ایاز صادق
لاہور (خبر نگار+ خصوصی نامہ نگار ) جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی قیادت میں جماعت اسلامی کے وفد نے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے ملاقات میں تحریک انصاف کے ارکان کے استعفے منظور نہ کرنے کی باقاعدہ درخواست کر دی جبکہ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے استعفوں کے معاملے کو زیادہ لٹکایا نہیں جا سکتا رولز کے مطابق استعفے منظور کئے جائیں گے لیکن مجھے امید ہے آج شام تک استعفوں والا لفافہ کھولنے سے پہلے ہی مسئلہ حل ہو جائیگا۔ عمران خان نے اپنی شادی میں بطور گواہ بلایا تو ضرور جائوں گا۔ گزشتہ روز جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے مرکزی سیکرٹری اطلاعات امیر العظیم اور صوبائی صدر ڈاکٹر وسیم اختر کی قیادت میں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی جس میں ان سے باقاعدہ طور پر درخواست کی گئی کہ وہ ملک اور جمہوریت کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے مذاکراتی عمل کی وجہ سے تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفے فوری طور پر منظور نہ کریں۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا میں جب سے سپیکر بنا ہوں مکمل طور پر غیر جانبدار ہوں اور سیاسی معاملات پر کسی قسم کی بات نہیں کرنا چاہتا لیکن سراج الحق اور خورشید شاہ نے مجھے تحریک انصاف کے ارکان کے استعفے فوری طور پر منظور نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔ ملک میں جمہوریت اور ملک کیلئے مجھ سے جو کچھ ہو سکا ضرور کروں گا۔ انہوں نے کہا استعفے کب منظور کرنے ہیں اس کیلئے کوئی پابندی نہیں صرف میری تسلی ہونا ضروری ہے اور میں نے ابھی تک تحریک انصاف کے استعفوں والا لفافہ نہیں کھولا اور میں امید کرتا ہوں لفافہ کھولنے سے پہلے تحریک انصاف اور حکومت کے معاملات حل ہو جائیں گے۔ میں آئین، قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں۔ میں نے شاہ محمود قریشی سے بھی کہا تھا وہ استعفے دینے کی بجائے پارلیمنٹ میں آ کر بات کریں۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا پاکستان کی عوام ملک میں جمہوریت کا خاتمہ نہیں اس کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں اور میں اب بھی مایوس نہیں ہوں بلکہ پرامید ہوں کہ تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان معاملات بات چیت کے ذریعے حل ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا جماعت اسلامی کے وفد کی سپیکر سے ملاقات کا واحد مقصد یہی تھا کہ وہ استعفوں کو قبول نہ کریں بلکہ درمیانی راستہ نکالا جائے کیونکہ جن ارکان نے اسمبلی سیکرٹریٹ میں اپنے استعفے جمع کرائے ہیں ان کے استعفے منظور ہوجاتے ہیں تو پھر قومی بحران کو حل کرنے کیلئے مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا، سیاسی قوتوں کے درمیان فاصلے بڑھیںگے، اسمبلی سیکرٹریٹ میں جیسے ہی استعفے وصول کئے جاتے ہیں توآئین کی دفعہ 224 شق 4 کے مطابق 60 دنوںمیں الیکشن کا دوبارہ انعقاد ضروری ہوجاتا ہے، ہم نے اس حوالے سے دوسری سیاسی جماعتوں سے بات چیت کی، پیپلزپارٹی کے رہنما آصف زرداری سے ملاقات ہوئی ہے، ان سے بھی اس معاملے پر بات ہوئی۔ ہم چاہتے ہیں استعفے منظور نہ کئے جائیں تاکہ ہمیں کچھ مہلت مل سکے کہ ہم وفاقی حکومت اور دھرنے دینے والوں کی قیادت کے درمیان صلح کے لئے کوئی کردار ادا کرسکیں۔ انہوں نے کہا خوشی ہے دونوں فریقین مذاکرات کی میز پر آگئے ہیں۔ میں عمران خان اور طاہرالقادری کو داد دیتا ہوں کہ انہوں نے دھرنوں کو پرامن رکھا ہے۔ باہر کی دنیا کو اچھا پیغام ملا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ دھرنا دیئے بیٹھے ہیں لیکن ایک شیشہ تک نہیں ٹوٹا، اس پر ہمیں دھرنے کے شرکاء کو داد دینے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ مرکزی حکومت نے جس صبر اور حکمت عملی سے کام لیا، پولیس نے کوئی گولی اور لاٹھی نہیں چلائی وہ بھی داد کی مستحق ہے۔ آئین کے آرٹیکل 63 اور رولز آف بزنس کے ضابطہ 43 کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی موصول ہونے والے استعفیٰ کی تصدیق کرے گا کہ یہ درست ہے یا نہیں اور اس کے لئے رکن اسمبلی کو طلب بھی کیا جاسکتا ہے۔
سپیکر/ سراج الحق