• news

سڑکوں پر دھرنے کینیڈا میں دئیے جاتے ہوں گے، شاہراہ دستور فوری خالی کی جائے: سپریم کورٹ، دونوں جماعتوں نے یقین دہانی کرا دی: اٹارنی جنرل

اسلام آباد (ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے ممکنہ ماورائے آئین اقدام کیخلاف دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے شاہراہ دستور فوری طور پر خالی کرانے کا حکم دیدیا ہے۔ چیف جسٹس ناصرالملک نے کہا ہے کہ دھرنے کے شرکاء سرکاری ملازمین کو ہراساں کرتے ہیں، شاہراہ دستور کو کلیئر کرایا جائے۔ منگل کو ہم اسی راستے سے عدالت آئیں گے جبکہ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جہاں سے انصاف ملتا ہے اسی عدالت کی دیوار پر کپڑے سکھائے جارہے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالت فیصلہ دے چکی ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے اس قسم کے دھرنے شاید کینیڈا میںدیئے جاسکتے ہیں پاکستان میں نہیں، جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ ڈنڈا بردار پرامن کھیل کے لئے آئے ہیں یا کہ شادی میں ڈانڈیا کھیلنے آئے ہیں۔ عدالت نے تحریک انصاف، عوامی تحریک اور اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ فریقین مل بیٹھ کر شاہراہ دستور کو خالی کرنے کے حوالے سے متفقہ لائحہ عمل طے کر لیں اور رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہتے، دھرنے والے کسی دوسرے مقام پر اپنے مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رکھیں عدالت کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ دھرنے کی وجہ سے آڈیٹر جنرل شرعی عدالت اور الیکشن کمشن کے دفاتر مفلوج ہوچکے ہیں۔ تحریک انصاف نے عدالت کی طرف سے شاہراہ دستور خالی کرنے کی ہدایت پر کہا کہ تحریک انصاف کے کارکن پریڈ ایونیو میں موجود ہیں جہاں سے آنے جانے والوں کو کوئی مشکل نہیں ہورہی شاہراہ دستور کے حوالے سے اپنا موقف عوامی تحریک والے ہی دے سکتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ پریڈ گرائونڈ میں دھرنا دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے سرکاری ملازمین اور عوام کی دفاتر تک رسائی متاثر نہیں ہوتی۔ عدالت نے کہا کہ احتجاج آئینی حق ہے مگر شاہراہ دستور کو خالی کیاجائے۔ درخواست گزار کامران مرتضیٰ نے موقف اختیار کیا کہ تمام شہریوں کو نقل و حرکت کی اجازت ہونی چاہیے اور اس میںکسی قسم کی مداخلت آئین کیخلاف ہے جس سے عدالت نے بھی اتفاق کیا اور چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ احتجاج کرنے والے ہر آنے جانے والے کی شناخت طلب کرتے اور اس کی تلاشی لیتے ہیں اس طرح لوگوں کی آمدورفت متاثر ہورہی ہے۔ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے دونوں احتجاجی جماعتوں کو سپورٹس کمپلیکس میں جمع ہونے کی پیشکش کی ہے۔ بعد ازاں اٹارنی جنرل اور دونوں سیاسی جماعتوں کے وکلاء کے درمیان کافی دیر صلاح مشورہ کیا گیا جس کے بعد اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ دونوں جماعتوں نے شاہراہ دستور خالی کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے اس پر عدالت نے اٹارنی جنرل اور ان وکلاء کی کمیٹی کو معاملات صلاح مشورے کے ساتھ طے کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت کل بدھ 27اگست تک ملتوی کردی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ تحریک انصاف کے سربراہ نے کہا ہے کہ اگر وزیراعظم مستعفی نہ ہوئے تو پھر تھرڈ امپائر آجائے گا جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کے مطابق عمران خان تھرڈ امپائر شاید فوج کو سمجھ رہے ہیں۔ اس پر تحریک انصاف کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ تھرڈ امپائر سے مراد ’’اللہ میاں‘‘ ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اپنے 31 جولائی 2009 کے فیصلے میں نظریہ ضرورت کہ ہمیشہ کے لئے دفن کرچکی ہے۔
اسلام آباد (ایجنسیاں ) اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈاکٹر طاہرالقادری کیخلاف کیس کی سماعت 2 ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے اسلام آباد کی مقامی انتظامیہ اور وزارت داخلہ سے تحریری رپورٹ طلب کرلی ہے۔ عدالت نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو احکامات جاری کئے ہیں کہ وہ عدالت میں تحریری طور پر جواب داخل کروائیں کہ اسلام آباد میں احتجاجی دھرنوں کی اجازت کس نے دی‘ شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرنا کس کی ذمہ داری ہے اور مقامی تاجروں کے نقصان کا ازالہ اور ان کو تحفظ فراہم کرنا کس کی ذمہ داری ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد مریم خان سے استفسار کیا کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کی اجازت کس نے دی؟۔ اسلام آباد کی مقامی انتظامیہ نے شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے کیا اقدامات کئے۔ احتجاج کرنا سیاسی جماعتوں کا آئینی حق ہے۔ عدالت سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی جبکہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنوں سے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے راستے بند ہو چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی گاڑیوں کو عدالت میں جانے کیلئے راستہ نہیں مل رہا۔ وفاق میں پچاس کے قریب سکول بند ہوچکے ہیں جن میں حکومت نے پولیس والوں کو مہمان بنا کر رکھا ہوا ہے۔ پارلیمنٹ ریاست کی علامت ہے اس کی طرف جانے والے بھی تمام راستے بند ہوچکے ۔کیا مقامی انتظامیہ اس تمام صورتحال سے واقف نہیں ہے؟۔ لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کو لے جانے کیلئے دشواریاں پیدا ہورہی ہیں۔ ریڈ زون میں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی وجہ سے مختلف مسائل پیدا ہورہے ہیں اور وہاں بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مریم خان نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کو اسلام آباد میں احتجاجی دھرنے کی اجازت دی گئی تھی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مقامی انتظامیہ کو چاہئے کہ سیاسی جماعتوں کو احتجاج کیلئے ایک علیحدہ جگہ مختص کردیں تاکہ وہاں دولاکھ یا بیس لاکھ لوگ جمع ہوں جہاں وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرا سکیں تاکہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو اور سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کی طرف جانے والے راستے بھی بند نہ ہوں۔ عدالت نے سماعت 2 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

ای پیپر-دی نیشن