ڈاکٹرزرداری، دھرنوی بیماری اور مست قلندر
چودہ اگست سے تادم تحریر اسلا م آباد کے سیاسی منظر میں طاہرانہ اور عمرانہ دھرنے اپنا اپنا رنگ بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ طاہرانہ دھرنے میں شامل مرد اور خواتین حضرات نظم وضبط کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ طاہر القادری صاحب اپنی شعلہ بیانی سے اپنے مریدین کے جذبات بھڑکاتے ہیں۔ جب وہ آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہیں تو مریدین کی بھڑک بھی ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ عمرانی دھرنے میں وقفے وقفے سے ترانے اور عمرانیہ گیت چلائے جاتے ہیں۔ ان گیتوں پر میک اپ زدہ خواتین، نوجوان مرد اور بچے والہانہ رقص کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ شیخ رشید اور شاہ محمود قریشی وغیرہ وقفے وقفے سے عمران خان کے کانوں میں سرگوشیاں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ 25 اگست کی رات عمران خان نے دھرنوی عاشقوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں تھکنے والا کپتان نہیں ہوں۔ جس کپتان کا سٹیمنا ہوتا ہے وہ جیت جاتا ہے۔ آپ کا کپتان آخری گیند تک لڑنے والا کھلاڑی ہے۔ نواز شریف یہ نہ سمجھے کہ ہمارا جنون کم ہو گیا ہے۔ نواز شریف کے استعفی تک میں اس وکٹ سے نہیں ہٹوں گا۔ ہم نے نواز شریف کو پکڑنا ہے اسے سیاسی شہید نہیں بننے دینگے۔ اگر پولیس نے کوئی کارروائی کی تو پورے ملک میں آگ لگ جائیگی۔ عمران خان نے عوام سے درخواست کی کہ وہ بڑی تعداد میں گھروں سے نکلیں اور بیس پچیس ہزاری دھرنے کے سمندر میں آن گریں۔ دوسری طرف رات بارہ بجے ٹی وی چینلز پر یہ خبر چل رہی تھی کہ دھرنے کے شرکا نے پنڈال خالی کرنا شروع کر دیا ہے اسکے ساتھ ہی سینکڑوں خالی کرسیاں دکھائی جا رہی تھیں۔ دھرنے میں موجود ایک باریش جوان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زمین پھٹ جائے یا آسمان گر پڑے۔ ہم دھرنا نہیں چھوڑیں گے۔…؎
ہمیں خود چھوڑ دے دھرنا تو چھوڑے
نہیں ہم لوگ چھوڑیں گے یہ دھرنا
کپتان عمران خان اپنی جذباتی تقریر میں تواتر کے ساتھ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو انتخابی دھاندلی کا ’’کپتان‘‘ قرار دیتے رہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ توہین عدالت کی پِچ پر بھی چھکا لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔جذباتی پن سے یاد آیا کہ اسلام آباد میں دوسرے دھرنے کے کپتان اپنے تقریری جذباتی پن میں عمران خان سے بھی بازی لے گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے دھرنوی عاشقوں کے سامنے ہسپانوی بل فائٹروں کے سے انداز میں ایک سفید چادر لہراتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اپنے کفن کا کپڑا خرید کر لے آئے ہیں اور شہادت کیلئے آخری غسل کے بعد تقریر کرنے کیلئے اپنے عاشقوں کے سامنے حاضر ہوئے ہیں۔ پھر کفن کو ہوا میں پھیلاتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ کفن میں پہنوں گا یا پھر نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ یہ کفن پہنے گی (زیادہ زور جملے کے آخری حصہ پر تھا) طاہرالقادری نے یہ اعلان بھی کیا کہ انقلاب مارچ ختم ہو کر اب انقلاب میں بدل گیا ہے۔ اڑتالیس گھنٹے بعد دمادم مست قلندر ہو گا۔ اس بیان پر کرشماتی سیاسی قلندر الطاف بھائی کا بیان آیا کہ اگر دھرنے والے دھرنے پر اڑے رہے تو دھڑن تختہ یعنی خون خرابہ ہو سکتا ہے اور وہ خون خرابہ ٹالنے کیلئے ایم کیو ایم کی 25 نشستیں دینے کو تیار ہیں۔ الطاف بھائی نے یہ واضح نہیں کیا کہ اسمبلی میں ایم کیو ایم کی یہ 25 نشستیں عمران خان کو دینگے، طاہرالقادری کو دینگے یا پھر دونوں میں نصف نصف تقسیم کرینگے۔ انہوں نے یہ قلندرانہ پیش گوئی بھی کی کہ وہ مارشل لاء کو جمہوریت کی چھتری تلے دیکھ رہے ہیں۔ الطاف بھائی کی نظر کو داد دینا چاہئے کہ انہوں نے لندن میں بیٹھے بیٹھے اسلام آباد میں پوشیدہ ایک ایسی چھتری دیکھ لی ہے جو کسی اور پاکستانی کو ابھی اتک دکھائی نہیں دی۔ دھرنے کا مرض و بائی صورت میں پھیلتا دیکھ کر سیاسیات میں پی ایچ ڈی کی غیر اعلانیہ ڈگری کے حامل ڈاکٹر زرداری بھی بیرون ملک سے پاکستان آ گئے ہیں۔ ان کی آمد پر ایک صحافی ایک سوال ان سے پوچھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ دھرنا بیماری کے علاج میں آپ کیسا نسخہ تجویز کر سکتے ہیں۔ تو زرداری صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ڈاکٹر مریض کو دیکھے گا تو مرض کا پتہ چلے گا۔ اصل مرض کی تشخیص کیلئے ڈاکٹر زرداری نے سب سے پہلے دھرنے سے متاثر سب سے بڑے مریض نواز شریف کے گھر جا کر تیمار داری کی اور تلقین کی کہ دھرنا بیماری جتنا چاہے زور پکڑے آپ نے نہ تو استعفیٰ دینا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کو توڑنا ہے۔ اسکے بعد انہوں نے عمران خان ، طاہر القادری ،چودھری شجاعت ، پرویزالٰہی، شیخ رشید جیسے مریضان دھرنا سے رابطے کئے اور بغیر فیس تمام دھرنوی مریضوں کو شفائی مشورے دیئے۔ عین ممکن ہے انہوں نے دھرنوی مریضوں کے جنون کی شدت دیکھ کر یہ خفیہ مشورہ دیا ہو کہ کچھ بھی ہو جائے آپ نے دھرنا دھرے رکھنا ہے۔ یہ تُکا ہم نے اس لئے لگایا ہے کہ دھرنوی مریض چودھری شجاعت اور پرویزالٰہی نے ڈاکٹر زرداری کو سیاسی نبض دکھانے کے بعد کچھ ایسی ہی باتیں کی تھیں۔ خود ڈاکٹر زرداری کے بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے تمام دھرنوی مریضوں کو صبر و تحمل کا ٹیکہ لگایا ہے لیکن شاید یہ ٹیکہ زائد المعیاد تھا کیونکہ دھرنوی مریضوں پر ابھی تک کوئی واضح اثر ظاہر نہیں ہوا کیونکہ طاہر القادری نے بیانگ دہل اعلان کر دیا ہے کہ بدھ تک نواز شریف شہباز شریف مستعفی ہو جائیں۔ اسمبلیاں توڑ دی جائیں۔ دونوں شریف بھائیوں کو بدمعاش قرار دے کر جیل بھیجا جائے۔ ورنہ دما دم مست قلندر ہو گا۔ قوم منتظر ہے کہ دیکھیئے…ع
دما دم کریں کیا یہ دھرنا قلندر