مایوسی کا نام ابلیسیت ہے
ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ مذاکرات کے لئے نواز شریف اور شہباز شریف بھی آئے تو ان کی بات سنوں گا۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کی بات سنی تھی جب سنانی چاہئے۔ ڈاکٹر طاہر القادری جوش، خطابت میں عجیب مثالیں بیان کرتے ہیں۔ قارئین خود ہی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ابلیس کا اشارہ کن کی طرف تھا؟
انسان پیدا ہوا تو عالم آفاق کی تمام اشیا اس کیلئے مسخر کر دی گئیں۔ملائکہ انسان کے حضور جھک گئے۔ ابلیس مقابلہ کیلئے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اطاعت، تعمیل ارشاد ملائکہ کی خصوصیات ہیں۔ بغاوت ،سر کشی، انکار، یہ خوائے ابلیسی ہے۔ ابلیس کا ’’ اعتراض‘‘ تھا۔ ’’ میں اس پیکر خاکی سے کہیں بہتر ہوں۔ اسے تو نے مٹی سے پیدا کیا، میری تخلیق آتش ہے، میں اسکے سامنے کیوں جھکوں‘‘۔ فرشتوں کے سامنے جب حقیقت واضح کی گئی تو انہوں نے سر جھکا دیا لیکن جب ابلیس کے سامنے حقیقت بے نقاب ہوئی تو وہ جھکا نہیں۔
قرآن کے الفاظ میں ’’ اس نے سر کشی کی اور تکبر اختیار کیا اور وہ نہ ماننے والوں میں سے تھا، لفظ ابلیس کا مادہ (ابلاس)ہے ۔جس کے معنے ہیں انتہائی مایوسی، سب سے بڑی ابلیسیت جس کا مقابلہ انسان کو کرنا ہے یاس اور نا امیدی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی نام ہی امید و آرزو کا ہے۔ جب تک کسی سینہ میں آرزو کی کرن موجود ہے زندگی کی رمق باقی ہے۔ آرزئوں کے فنا ہو جانے کا نام موت ہے۔ خوف اور حزن دونوں ایمان کی کمزوری کی دلیل ہیں۔ ایمان کا خطرہ نتیجہ یہ ہے کہ خوف اور حزن پاس نہ پھٹکنے پائیں۔ یہی وہ مقام ہے کہ جس کے متعلق ابلیس سے کہہ دیا گیا تھا۔ کہ جائو اپنا سارا زور لگا کر دیکھ لو قرآن کے الفاظ میں ’’ میرے بندوں پر تیرا قبضہ نہیں ہو سکے گا‘‘۔اس وقت پاکستان کے مستقبل کا مسئلہ زیر غور ہے۔ دھرنے دیئے جا رہے ہیں اور ریلیاں نکل رہی ہیں، انقلاب مارچ اور نیا پاکستان کا خواب یہ سب کیا ہے؟ ہر طرف سے مختلف قسم کی آوازیں اٹھ رہی ہیں کوئی کچھ کہتا ہے، کوئی کچھ پاکستان کا تصور حکیم الامت علامہ اقبال نے اپنی قرآنی بصیرت کے مطابق پیش کیا تھا۔ پاکستان کی انتہائی بد قسمتی ہے کہ وہ اقبالؒ کی قیادت سے محروم رہ گیا۔ اگر آج اقبالؒ زندہ ہوتے تو وہ اپنے تصور کو عملی شکل عطا کر دیتے۔ہر چند ہم میں آج اقبالؒ موجود نہیں لیکن علامہ اقبال کی فکر ہمارے پاس موجود ہے۔ ہم اس فکر کی روشنی میں پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنا سکتے ہیں۔علامہ اقبال نے 1930ء میں مسلم لیگ کے اجلاس میں اپنے خطبہ صدارت میں کہا ’’ یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کوئی کلیسائی نہیں بلکہ یہ ایک ریاست ہے جس کا اظہار ایک ایسے وجود میں ہوا جو عقد اجتماعی کا پابند ہے۔ ریاست اسلامی کا انحصار ایک اخلاقی نصب العین پر ہے جس کا عقیدہ ہے کہ انسان شجر و حجر کسی خاص زمین سے وابستہ نہیں بلکہ وہ ایک روحانی ہستی ہے جو ایک اجتماعی ترکیب میں حصہ لیتا ہے اور اسکے ایک زندہ جزو کی حیثیت سے فرائض اور حقوق کا مالک ہے‘‘علامہ اقبال ؒ نے 1938ء میں ریڈ یو کی ایک تقریر میں کہا تھا ’’ جن نام نہاد مدبرین کو انسانوں کی قیادت اور حکومت سونپی گئی ہے وہ خونریزی ٗ سفاکی اور زبردست آزادی کے دیوتابت ہوئے۔جن حاکموں کا فرض تھا کہ انسانی حقوق کی حفاظت کریں۔انسان کو انسان پر ظلم سے روکیں۔ انسانیت کی ذہنی اور عملی سطح کو بلند کریں۔ انہوں نے ملوکیت و استعمار کے جوش میں لاکھوں،کروڑوں مظلوم بند گان خدا کو ہلاک و پامال کر ڈالا۔ صرف اس لئے کہ ان کے اپنے مخصوص گروہ کی ہو اور ہوس کی تسکین کا سامان بہم پہنچائے‘‘۔’’باب جبریل‘‘ میں علامہ اقبال کی ایک نظم ہے۔’’ ابلیس کی عرض داشت‘‘ نظم کا آخری شعر ہے۔
جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہ افلاک
ابلیس کی زبان سے علامہ فرماتے ہیں۔
اس سے بڑھ کر اور کیا فکرو عمل کا انقلاب
بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں
چشم ِ عالم سے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محروم یقیں
ہے یہی بہتر الہیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے