عمران خان کے دھرنے اور مسلم لیگ (ن) کی ریلیاں
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ سابق ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن افضل خان نے یہ بیان دیکر میرے موقف کی تصدیق کر دی ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ‘ جسٹس ریاض کیانی کا اس الیکشن کو تباہ کرنے میں 90فیصد ہاتھ ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار حسین چودھری اور تصدق حسین جیلانی بھی دھاندلی میں ملوث تھے اور انتہائی منظم طریقے سے دھاندلی کی گئی اور عوام کا مینڈیٹ چوری کیا گیا۔ عمران خان نے سابق ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن افضل خان کے بیان کے بعد یہ اعلان کر دیا ہے کہ نواز شریف گھٹنے ٹیکنے والے ہیں۔ استعفیٰ نہ آیا تو ملک کا پہیہ جام کردینگے‘ تین دن میں میچ ختم ہوسکتا ہے۔ جہاں تک سابق ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن افضل خان کے بیان کا تعلق ہے تو اسکے بارے میں سابق جسٹس ریاض کیانی کا کہنا ہے کہ ملازمت میں توسیع نہ کرنے پر افضل خان الزام تراشی پر اتر آئے ہیں انہیں صرف الزام ہی نہیں لگانے چاہئیے بلکہ دھاندلی کے ثبوت بھی پیش کرنے چاہئیے تھے۔ بہرحال افضل خان کے بیان سے عمران خان بہت خوش ہیں اور اب دوسری طرف مسلم لیگ (ن) نے عمران خان کے دھرنوں کے جواب میںنواز شریف کی حمایت میں اور جمہوریت کے خلاف سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے ملک بھر میں اپنی طاقت شو کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) نے 24اگست کو فیصل آباد اور 25اگست کو لاہور میں جمہوریت آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے ایک بہت بڑی ریلی نکالی اور اب وہ بہت جلد اسلام آباد میں بھی ایک بہت بڑی ریلی نکالنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔
تحریک انصاف پاکستان اور مسلم لیگ (ن) کی ریلیوں سے سیاسی کشیدگی میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام جو گذشتہ دو ہفتوں سے عمران خان اور طاہرالقادری کے یرغمال بنے ہوئے ہیں‘ انکی نمائندگی کرنیوالی ساری جماعتیں‘ تنظیمیں‘ طبقے اور ادارے سب موجودہ بحران میں حکومت کو حق پر سمجھ رہے ہیں۔ ان میںوکلاء برادری‘ تاجر‘ صنعتکار پیش پیش ہیں۔ اسکے برعکس پورے ملک میں صرف تحریک انصاف اور عوامی تحریک انکے رہنما اور کارکنان کا عالم یہ ہے کہ وہ کبھی مذاکرات پر آمادہ ہوتے ہیں کبھی یکسر انکار کرتے ہیں اور کبھی انکی سوئی ایک ہی نکتے پر اٹک کر رہ جاتی ہے کہ وہ وزیراعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے استعفوں سے پہلے کوئی بات نہیں کرینگے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ مرجاؤں گا مگر نواز شریف سے استعفیٰ لئے بغیر یہاں سے نہیں جاؤں گا جبکہ انکے فکری ہمزاد طاہرالقادری اس بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ وہ صرف استعفوں سے مطمئن نہیں ہوں گے وہ تو پورا نظام الٹ پلٹ کر اپنا نظام لانا چاہتے ہیں جس کا خاکہ اب تک کسی کے سامنے نہیں آیا۔ صرف انکے اپنے ذہن میں ہے سارے نظام کی بساط لپیٹ کر وہ کون سی نئی بساط بچھائیں گے اور اس بساط کے سیاہ و سفید مہرے کون مہیا کرے گا؟ دونوں مہربانوں کی زبانیں اپنے مخالفین کیلئے طعن تشنیع سے بڑھ کر دشنام طرازی سے آلودہ ہونے لگی ہیں۔ ان کے گالی گلوچ کے الفاظ تو یہاں نہیں دہرائے جاسکتے لیکن عمران خان کا لب و لہجہ ملاحظہ ہو کہ وزیراعظم کو ’’اوئے نواز شریف تجھے نہیں چھوڑوں گا‘‘ کہتے کہتے سرکاری فرائض انجام دینے والے پولیس اہلکار وں کو بھی مختلف انداز میں دھمکاتے اور کبھی انکی چاپلوسی کرتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد کے نئے آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرا ایک بھی کارکن زخمی ہوا تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا تمہارا گلا دبا دوں گا‘ ایک پنج بھی لگاؤں گا اور جیل بھی بھجوا دوں گا‘‘۔ نواز شریف اپنی کرسی بچانے کیلئے پولیس کو استعمال کرنا چاہتا ہے اگر کچھ کرنا ہی ہے تو پہلے مجھ پر گولی چلاؤ۔ عمران خان کی زبان تو پہلے ہی بگڑی ہوئی تھی‘ انہیں اور تحریک انصاف کے کارکنوں کوفکر کرنی چاہیئے کہ اب انکے چیئرمین کا ذہن بھی بگڑنے لگا ہے۔ نفرت ‘ غصہ اور اشتعال کی کثرت ہو تو چہرے کی ہیبت بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ قرآن کریم میں بنی اسرائیل کی مثال موجود ہے کہ اسکے لوگوں کی شکلیں اپنے اعمال بد سے بگڑیں۔ طاہرالقادری تو بزعم خود بہت بڑے علامہ ہیں ‘ بنی اسرائیل کی یہ مثال انہیں بھی یاد رکھنی چاہئے۔
اس وقت اسلام آبادمیں جو صورت حال چل رہی ہے بنظر غائر دیکھنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اب صورت حال سیاسی نہیں بلکہ انا پرستی ضد اور ہٹ دھرمی کی عکاسی کرنے لگی ہے۔ کسی بھی جانب سے کسی قسم کی لچک کے مظاہرے پر کوئی بھی تیار نہیں اس صورت حال کو دیکھ کر ایسا لگنے لگا ہے کہ یہ پاکستان کے جمہوری سیاستدان اور جمہوری طور پر منتخب حکمرانوںکے درمیان کا معاملہ نہیں بلکہ مجموعہ ضدیں ہے۔ عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ انکے نام پر جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہاں ان کا مفاد کہاں ہے۔ جہاں تک کارکردگی کا سوال ہے ہر دو فریق اپنی اپنی سطح پر برسر اقتدار ہیں مگر جہاں جہاں جائیں عوام کی حالت وہی ہے اور اگر حالات کسی جانب تبدیل بھی ہوگئے تب بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ عوام کی حالت میں بہتری آئے گی۔