• news

چھیالیس سالہ دوستی‘ حفیظ اللہ نیازی کا ’’سالا‘‘ اور زبیدہ آپا

گذشتہ کئی دنوں سے یہ سن سن کر بدن سن‘ اور ہوش گم ہونا شروع ہو جاتا ہے‘ کہ آئندہ چوبیس گھنٹے اور آئندہ اڑتالیس گھنٹے بہت ہی اہم ہیں۔ مگر پھر وہیں سے شروع ہو جاتی ہے‘ جہاں پانچ سو افراد کے ساتھ دھرنا شروع ہوا تھا۔ کبھی اچانک وزیرداخلہ کی پریس کانفرنس شروع ہو جاتی ہے کہ میں چھیالیس سال پرانی دوستی بھی نبھائونگا‘ اورفرض بھی نبھائوں گا ۔
ادھر مولانا فضل الرحمٰن فرماتے ہیں کہ تحریک انصاف‘ عوامی لیگ کے دھرنے میں یہ دھرنیاں ہیں جب ہمیں صورتحال کی کوئی سمجھ نہیں آئی جیسے ہمارے کروڑوں ہم وطنوں کو آ رہی تو پھر ہم نے سوچا کہ زبیدہ آپا سے دھرنوں‘ اور دھرنوں کی Recipe پوچھیں اور انکے نقصانات اور فوائد کے بارے میں بھی کچھ معلومات حاصل کر لیں مگر انہوں نے نہ صرف صاف انکار کر دیا‘ بلکہ مجھے تلقین کی کہ آپ کی سنجیدگی کو کیا ہوا؟ جو آپ میری ساری عمر کی نیک نامی کو خاک میں ملانے پر تل گئے ہو میں نے عرض کیا‘ جب اتنے بڑے اہم مسائل گلیوں اور چوراہوں پر حل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہوں تو پھر کون کافر سنجیدہ رہ سکتا ہے۔ جب میرا اصرار حد سے بڑھنے لگا‘ تو پھر بولیں کپتان کو نجانے کیا ہو گیا ہے۔ بھلا یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ میں بھی مہاتما گاندھی ہوں‘ گاندھی تو ایسا رنگ رنگیلا اور عیاش تھا کہ اس سے تو اسکے اور تو اور رشتہ داروں کی عزت و عصمت بھی محفوظ نہیں تھی‘ میرے لاکھ سمجھانے بلکہ بجھانے کے باوجود مختلف متضاد بیانات دینے کی کیا جلدی تھی کہ مجھے سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ منظور ہو گا‘ اور کبھی وزیراعظم ایک مہینے کیلئے استعفیٰ دیں اور پھر ان کے بہنوئی حفیظ اللہ خان نیازی بھی کہتے ہیں کہ میرے ’’سالے‘‘ کو سیاست کی الف ‘ بے بھی نہیں آتی۔
ادھر یہ خبریں بھی آ گئی ہے کہ مشرف کا طاہر القادری سے روزانہ کا رابطہ ہے اور بابائے کنٹینر یعنی کراچی کی سڑکوں پر کنٹینرز کھڑے کرانے کے موجد کا بھی ان سب سے رابطہ ہے اور پھر کپتان نے مشرف سے جو کتے کا بچہ لیا تھا ‘ وہ بھی جوان ہو گیاہے۔ یہ سب دیکھ کر اور قوم کے سامنے یہ جھوٹ بول کر کہ کل میرے جلسے میں جنید جمشید‘ اور شہزاد رائے اور کسی کا نام لے دیتا ہے حالانکہ حضورؐ کا فرمان ہے کہ مومن چور ہو سکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ حضور کے رب کا یہ بھی فرمان ہے‘ جو مولانا فضل الرحمٰن نے نہیں بتایا‘ سورۃ النور میں ہے اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے‘ ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہو گا‘ کپتان کا کزن انعام اللہ نیازی جوسیمرا ملک کی وجہ سے عمران کو چھوڑ گیا اعلانیہ کہتا ہے کہ کپتان کے پیچھے وہ طاقت ہے جس نے اس کا لاہور کا پہلا جلسہ کرایا تھا‘ اخباروں میں یہ بھی آیا ہے کہ چودھری نثار عمران سے دوستی نبھانے کیلئے سادہ کپڑوں میںسکیورٹی اہلکاروں کو بھیج کر دھرنے میں جان ڈال دیتے ہیں چاہنے والوں کی اکثریت امیر گھرانوں سے ہے جو بارش‘ دھوپ‘ بھوک پیاس برداشت نہیں کر سکتے اس لئے صرف رات کو آتے ہیں۔ عمران خان نے پرویز خٹک عرف تیلی پہلوان کی شدید سرزنش کی ہے کہ وہ ایسے لوگ لائے جن پر پانچ کی بجائے دس خرچ کرنا پڑے مگر و دن میں بھی سڑکوں پر ڈیرے ڈالے رکھیں‘ آپا نے بتایا کہ مختصراً کنٹینر نہاری کی ترکیب یہ ہے چونکہ دہلی کی نہاری مشہور ہے لہذا نہر والی حویلی (دہلی) پنڈی کی لال حویلی والے والا ضرور ہو‘ جسے دہی کی جگہ استعمال کیا جا سکتا ہے اور شاہ محمود قریشی کو لیموں کی جگہ استعمال کیا جا سکتا ہے کچے پپیتے کی جگہ جاوید ہاشمی کو ڈال کر پریشر ککر کو بند کر دیں سارا دن ہلکی ہلکی آگ پر چلتا رہے شام کو آہستہ آہستہ کینٹینر (پریشکرککر) کو کھولیں‘ کپتان قمیض کے اوپر والے اور بازو کے بٹن کھول کر ہاتھوں سے بالوں کو بے ترتیب کر کے چھت پر چڑھ جائے جیسے شام ڈھلتے ہی بانکے گھروں کی چھت پر چڑھ کر دوسروں کی چلمن اور چوباروں پہ تانک جھانک کرتے ہیں‘ اگر بارش ہو جائے تو پانچویں ‘ چھٹی چھینک پہ نیچے اتر آئیں ‘ اگر دسویں روز بھی گوشت نہ گلے تو فضل الرحمٰن کو منہ توڑ جواب دیں‘ اور خواتین کو میری بہنو کہہ کر پکاریں اگر پھر بھی بڑا گوشت گلنے کا نام نہ لے تو کوئلے کو دہکتا ہوا انگار بنا کر کنٹینر کے نیچے رکھ دیں‘ مظاہرین کے جذبات کی حدت اور شدت بڑھانے کیلئے کام آئیگا اور یہ کام چودھری برادران بخوبی کر سکتے ہیں۔ مذاکرات کے بہانے حکومتی مذاکراتی ٹیم کو اگر ممکن ہو تو وزیراعظم کو بھی کینٹینر میں بلوا کر دروازے بند کر دیں‘ سارے اور مطالبے پورے ہونے تک دروازے نہ کھولیں بے شک کنٹینر بھگا کر لے جائیں‘ یقین رکھیں‘ دوستی جیت جائیگی‘ فرض حرکت میں نہیں آئے گا کیونکہ فرض والا اپنے مراسم اور تعلقات کی وجہ سے عرصے سے سکندر سے بھی پہلے کا نیک نام نہیں ہے‘ تب بھی پیپلز پارٹی کے جیالے نے اسلام آباد کو آزادی دلائی تھی‘ اب تو خود مرد حر بھی میدان میں ہے‘ جنہیں کروڑوں ہم وطنوں کی طرح مطالبات پر نہیں انداز پر اعتراض و تحفظات ہیں اور شاید حکمران جماعت کو بھی کیونکہ بے حیائی کے نتیجے میں لبنان‘ شام‘ افغانستان اور عراق کا حال ہمارے سامنے ہے۔!!!

ای پیپر-دی نیشن