سید صفدر علی شاہ ایڈووکیٹ۔ 85 سلیم بلاک اتفاق ٹائون ملتان روڈ لاہور
میرا چھوٹا گائوں خانقاہ سیداں ریاست کپور تھلہ سے دو میل کے فاصلہ پر تھا۔ یہاں سے آگے ایک گائوں راجپوتوں اور باقی سکھوں کے تھے۔ راستہ ہمارے گائوں کے ساتھ سے گزرتا تھا وہاں ہمارے بزرگوں کا ایک بڑا مزار تھا۔جب پاکستان بنا تو سکھ ہمارے بزرگوں کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ نے جانا ہے تو آپ کو کیمپ میں چھوڑ آتے ہیں۔ جی ٹی روڈ پر ایک گائوں مدھا گران ہے وہاں سے ریاست کو سڑک جاتی ہے وہاں مہاجرین کا کیمپ تھا۔ سکھ ہمارے گائوں والوں کو وہاں چھوڑ آئے تو اگلے ہی دن ایک قافلہ جالندھر سے آ رہا تھا تو کیمپ والے کافی لوگ اس کے ساتھ شامل ہو گئے۔ رات پڑائودریائے بیاس پر ہوا اور اگلی رات منڈی مویشیاں امرتسر ہوا۔ وہاں خطرہ کی وجہ سے ٹینک لگا دئیے گئے۔ قافلہ کی نگرانی بلوچ رجمنٹ کی گاڑیاں کر رہی تھیں۔ اگلی صبح ٹینک وہاں سے ہٹا کر خالصہ کالج پر لگا دئیے گئے اور کچھ لوگ ان کے ساتھ ہی روانہ ہو گئے وہ محفوظ رہے۔ جب بیل گاڑیاں امرتسر شہر سے گزریں تو کچھ لوگ دائیں چل رہے تھے اور کچھ بائیں۔ ہم بائیں طرف تھے ادھر باغ تھا۔ شہر کی طرف سے سکھوں نے اگر کوئی بھینس یا گھوڑی دیکھی چھین لی اور قافلہ سے جوان لڑکیاں اور عورتیں بھی اٹھا لیں۔ گولیوں کی آوازیں آ رہی تھیں، کلمہ طیبہ کا ذکر جاری تھا اور شہر سے باہر آ گئے وہاں ہندوئوں سکھوں کے خالی ٹرک کھڑے تھے۔ انہوں نے لوگوں کو منت سماجت کر کے سوار کیا۔ اس طرح ہم پاکستان پہنچ گئے۔