میں فلسطین ہوں
ایک وقت تھا جب فلسطین کا مسئلہ پوری دنیا کے اہم ترین مسئلوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ اس کو عالمی سطح پر اسلامی مما لک اور دیگر تنظیمیں اٹھاتی تھیں، لیکن اب فلسطین میں اسرائیلی جارحیت پر کو ئی آواز تک نہیں اُٹھاتا۔ اگر کوئی تنظیم یا ملک اس پر آواز اٹھاتا بھی ہے تو اسکی آواز کو اس حد تک رکھا جاتا ہے کہ وہ خود ہی سن سکے اور دنیا کے سامنے نہ آسکے۔بدقسمتی سے اسرائیل نے یہ وطیرہ اپنالیا ہے کہ ہر سال، دو سال بعد جارحیت کا ارتکاب کرتا ہے۔ ہزاروں لوگوں کو شہید کرتا ہے۔ چھوٹے اور معصوم بچوں کے چیتھڑے اُڑاتا ہے۔ ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو زمین بوس کردیتا ہے اور پھر بدمست ہاتھی کی طرح واپس چلا جاتا ہے۔ کوئی اسے پوچھنے والا نہیں۔ موجودہ اسرا ئیلی بمباری کے نتیجے میں اب تک دو ہزار سے زائد افراد شہید، ہزاروں زخمی اور کئی بستیاں ملیامیٹ ہوچکی ہیں۔اسرائیل کا مسئلہ اتنا پیچیدہ نہیں، جتنا دنیا اسے پیش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ آج جس خطے پر اسرائیل زبردستی قابض ہے، یہاں پر 80 فیصد مسلمان اور 20 فیصد یہودی بستے تھے، لیکن پھر بالفورس ڈیکلریشن کے ذریعے یہودیوں نے یہاں زمین خریدنی شروع کی۔ چونکہ انکے پاس دولت بہت تھی، اس لیے ایک سازش کے تحت 70 فیصد فلسطینی زمین پر قابض ہوگئے۔ یہودیوں نے یہاں پر آبادکاری کے ساتھ جو دو پہلے کام کیے۔ ایک فلسطینیوں پر جبر، ظلم اور دوسرا وہاں دھونس دھمکی اور مختلف ترغیبات سے زمین کی خریداری۔ مشرف دور میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات چلی تھی، مگر اسے اس لیے زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی کہ پاکستانی عوام میں اسرائیل کے حوالے سے انتہائی منفی رائے پائی جاتی تھی۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ اسرائیل سال دو سال بعد جارحیت کرکے مظلوم فلسطینیوں کو تہہ تیغ کرنا شروع کردیتا ہے۔ حالیہ صورتِ حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ اسرائیل نے کئی بر س سے غزہ کو محصور کیا ہوا ہے۔ اسے آپ ایک جیل کہہ سکتے ہیں۔ یہاں پر نہ خوراک کی رسد ہے اور نہ دوا لے جاسکتے ہیں۔ فلسطین کو اس وقت بالکل الگ تھلگ کردیا گیا ہے۔ وہاں پر رہنے والوں کیساتھ نہ تو انسانی بنیادوں پر ہمدردی ہے اور نہ عالم اسلام ان مسلمانوں کے حق کیلئے آواز بلند کررہا ہے۔ سب سے زیادہ توقع عرب ممالک سے لگائی جاتی ہے۔ کیونکہ انکے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں۔ اگر یہ عرب ممالک تیل کی سپلائی بند کردیں یا اپنے اثاثے ان بینکوں سے نکال دیں تو چند دنوں میں یہ اپنی طاقت کا لوہا منواسکتے ہیں، لیکن ایسا کرنے کیلئے بڑی ہمت کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی جارحیت پر پاکستانی نژاد سعیدہ وارثی نے جس جرأت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ ان تمام اسلامی اور عرب ممالک کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ اسی طرح ظلم یہ بھی ہے کہ انسانی حقوق کے علمبردار جو ایک کتے کے مرنے پر آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں، وہ بھی اس پر خاموش تماشائی بنے ہوتے ہیں۔ ایک ظلم یہ بھی ہوا ہے کہ مصر کی طرف جو سرحد کھلتی ہے، وہ جنرل سیسی نے بند کررکھی ہے جبکہ اس سے قبل وہاں کے منتخب صدر محمد مرسی نے یہ گیٹ وے کھولا تھا جس سے غزہ کے مظلوموں کیلئے کافی آسانیاں پیدا ہوگئی تھیں۔پاکستان کے مسلمانوں کے دلوں سے فلسطینیوں کیساتھ رشتہ کمزور نہیں کیا جاسکا۔ اسکی ایک بڑی مثال کراچی میں جماعت اسلامی کا ’’غزہ ملین مارچ‘‘ تھا۔ اس مارچ کے بارے میں بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کراچی بلکہ پاکستان کے تاریخی پروگرامات میں سے ایک تھا۔ اس مارچ کی صدارت جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کی۔ کراچی کے ملین مارچ میں حماس کے سرابرہ خالد مشعل نے بھی آڈیو خطاب کرتے ہو ئے پاکستانی قوم اور اہل کراچی کا شکریہ ادا کیا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ملک میں جاری بحران اور سیاسی کشمکش کی وجہ سے اس مارچ کو بہت زیادہ کوریج نہیں مل سکی، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک ایسے وقت جب ملک میں سیاسی رساکشی چل رہی تھی اور کسی کو کرسی بچانے کی فکر تھی اور کسی کو کرسی حاصل کرنے کا غم کھائے جارہا تھا۔ ایسے میں جہاں ایک طرف سراج الحق پاکستان کی سیاست میں مثبت اور اہم رول پلے کررہے تھے، وہاں دوسری طرف کراچی میں اُمت مسلمہ کیلئے آوازِ حق بلند کررہے تھے، اور نہ صرف کراچی بلکہ فیصل آباد، سرگودھا، ساہیوال میں بھی غزہ کے مسلمانوں کیلئے آواز اُٹھائی۔مجھے اب یقین ہو گیا ہے کہ مسلم امہ کی سربراہی کرنے اور ان کیلئے آواز اٹھانے میں پاکستان ہی واحد ریاست ہے جو ایک مضبوط اور اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔اور پاکستان ہی مسلم امہ کو ایک لیڈر دے سکتا ہے جس کی جھلک امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے طرز عمل سے واضع ہو رہی ہے ،فلسطین چاہے دنیا کی بے حسی کا کتنا یہ شکار ہوجائے، مگر فلسطینیوں کے حوصلے ہمیشہ بلند رہیں گے۔ ایک نظم جو ظلم اور بربریت کی داستان سنارہی تھی، اسکے شروع کے الفاظ تھے…؎
میں فلسطین ہوں… اور آخری الفاظ تھے…
میں رہوں یا نہ رہوں… مجھے یاد رکھنا … میں فلسطین ہوں